اعتقد غیر ذلک فقد تزندق ولا خیرلہ۔ اما بعد فاعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۔ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین۔ وکان اﷲ بکل شیٔ علیما۔ وقال النبیﷺ انا خاتم النّبیین لا نبی بعدی، اما بعد‘‘
دین اسلام کی بنیادی اینٹ ختم نبوت کا عقیدہ ہے۔ رب کائنات نے کائنات کے لئے رشد وہدایت کا جو سلسلہ جاری فرمایا وہ نبوت ورسالت کا سلسلہ ہے جو کہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضرت محمد مصطفیﷺ پر ختم ہوتا ہے اور جیسا کہ پیغمبر آخر الزمانﷺ نے فرمایا کہ قصر نبوت کی میں آخری اینٹ ہوں۔ میری بعثت سے قصرنبوت کی تکمیل ہوگئی۔ میرے بعد کسی کو نبوت ملنے والی نہیں۔ ختم نبوت کے اس عقیدے کی اﷲ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب میں بے شمار تصریحات موجود ہیں۔
مذکورہ بالا آیت جس طرح ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہے۔ اسی طرح دلالت کے اعتبار سے بھی۔ علماء دین سے یہ امر مخفی نہیں کہ قرآن حکیم کی ایک بھی قطعی الدلالت آیت کریمہ ثبوت کے لئے کافی ہے۔ ختم نبوت کا ثبوت توسوسے زیادہ آیات مبارکہ اور دو سو سے زائداحادیث متواترہ سے ملتا ہے اور تواتر بھی ایسا کہ عقیدہ توحید کے بعد اس کی نظیر نہیں ملتی اور پھر عقیدہ ختم نبوت پر امت محمدیہ کا اجماع بھی ہے اور نہ صرف امت محمدیہ کا بلکہ تمام کتب سماویہ کا اس پر اجماع ہے۔ تمام انبیاء کرام کا اس پر اجماع ہے۔ انبیاء کرام سے یہ اقرار ’’لتؤمنن بہ ولتنصرنہ۔ قالو اقررنا‘‘ اس پر شاہد ہے۔ ہر جانے والے نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی واضح طور پر نشاندہی کی اور اپنے پیروئوں کو آنے والے نبی پر ایمان اور اس کی نصرت کی وصیت فرمائی۔
اگر حضور نبیﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ختم نہ ہوتا تو ضرور حضور اکرمﷺ بھی سابقہ انبیاء کرام کی طرح اپنے بعد آنے والے نبی کی واضح طور پر نشاندہی فرماتے اور اپنی امت کو اس پر ایمان اور اس کی نصرت کی وصیت فرماتے۔ جہاں اﷲ تعالیٰ کے بتانے سے حضور پاکﷺ نے بے شمار پیشین گوئیاں فرما ئیں۔ آپ ایمان بالنبی کے اس اہم مسئلے سے کبھی بھی خاموشی اور اغماض نہ فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور پاک کا بعد والے نبی کا ذکر نہ کرنا۔ نبوت کے ختم ہونے کی وجہ سے ہے۔
’’یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک‘‘ کے ساتھ ’’من بعدک‘‘ کا ذکر نہ کرنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضورﷺ پر اور حضورﷺ سے سابقہ انبیاء پر جو کچھ نازل کیا