زنداں کا سفر
۱۹؍جولائی تک حکومت مختلف حربے آزماتی رہی اور یہ بھی انتظار کرتی رہی کہ طویل ہڑتال کی وجہ سے شاید تحریک خود ہی جان دے دے۔ لیکن یہ امیدیں بر نہ آئیں۔ چنانچہ ایک طرف بعض قبائلی ملکوں کی مدد سے فورٹ سنڈیمن میں مجلس عمل سے سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا تو دوسری طرف کوئٹہ میں گرفتار شدگان سے وزیراعلیٰ جام غلام قادر نے خود مذاکرات شروع کئے۔ مذاکرات کی بات کرنے سے پیشتر ختم نبوت کے ان قیدیوں پر بیتے ہوئے واقعات کا قصہ بیان ہونا چاہئے۔
۱۶؍جولائی کی شام جب ان میں سے ۳۳؍قیدیوں کو دو ٹرکوں میں دھکیل کر ڈالا گیا۔ ٹرکوں کو تختوں اور ترپالوں سے بند کیا گیا تھا۔ شہر میں لاٹھی چارج اور تشدد کے ذریعہ راستہ صاف کرکے جب انہیں کوئٹہ لے جایا جارہا تھا تو عوام نے مینا بازار میں ٹرک روک لئے۔ اس وقت ختم نبوت کے ان قیدیوں نے فیصلہ کیا کہ خاموش بیٹھے رہیں گے اور حکام کو جھوٹ بولنے دیں گے کہ ان ٹرکوں میں مرزائیوں کو لے جایا جارہاہے۔ کیونکر سڑک پر دھرنا مارے مسلح اور غیر مسلح قبائلی عوام کو اگر یہ معلوم ہوا کہ ان میں ختم نبوت کے قیدی ہیں، تو وہ جان پر کھیل جائیں گے۔ لیکن ٹرکوں کو گزرنے نہیں دیں گے۔ راستے میں ان ٹرکوں سے کہیں بھی علماء اور شہریوں کو نماز کے لئے بھی باہر نکلنے کی اجازت نہ دی گئی اور نماز کے لئے ٹرک رکوانے کی مسلسل درخواستوں کو نظر انداز کیا۔ حتیٰ کہ ان حضرات نے تیمم کرکے تین نمازیں چلتے ٹرکوں میں ادا کیں۔ ایک قیدی عبدالرحمن زرگر جس پر فائرنگ کا الزام تھا۔ کوئٹہ کے قریب کچلاک میں اتار کر کہیں اور لے جایا گیا۔ باقی ۳۲؍قیدیوں میں سے سات نمایاں علماء حضرات کو کوئٹہ جیل میں رکھا گیا اور ۲۵؍افراد مچھ بھیج دئیے گئے۔
جام صاحب کے مہمان
وزیراعلیٰ جام غلام قادر کے حکم پر ۱۹؍جولائی کی رات ان سات حضرات کو جن میں خطیب جامع مسجد مولانا میرک شاہ اور دوسرے علماء شامل تھے۔ ان کے بنگلے پر لایا گیا۔ نو بجے سے رات بارہ بجے تک ان ’’قیدیوں‘‘ سے وزیراعلیٰ کی گفتگو جاری رہی۔ جام صاحب کا اصرار تھا قیدی فورٹ سنڈیمن فون کردیں کہ انہیں رہا کیا جارہا ہے۔ اس لئے کل سے ہڑتال ختم کردی جائے۔ مولانا میرک شاہ اور ان کے ساتھیوں کا متفقہ مؤقف تھا کہ جب تک مرزائیوں کو ضلع بدر