اس طرح مولانا شمس الدین نے حکمت سے بدترین خونی تصادم کو ٹالا۔ مولانا شمس الدین کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے شغالو سے قلعہ سیف اﷲ اور مسلم باغ سے ہوتے سمنگلی (کوئٹہ) ایئرپورٹ پر لایا گیا۔ جہاں سے درہ بولان اور سبّی سے ہوتے ہوئے اسی شام انہیں ضلع سبّی کے مشہور مقام ماوند پہنچا دیا گیا۔ ماوند مری قبیلے کاوہی گائوں ہے جسے مری علاقے میں فوجی کارروائیوں کے لئے بیس کیمپ بنایا گیا۔
یہ تھی ڈپٹی سپیکر بلوچستان مولانا شمس الدین کے سرکاری اغواء کی مختصر روداد… سرکاری اغواء اس لئے کہ نہ انہیں گرفتاری کے وقت وارنٹ دکھائے گئے اور نہ بعد میں حکومت نے ان کی گرفتاری کا اعتراف کیا۔ جب ہفتوں کے اضطراب، عوامی تحریک اور حزب اختلاف کے دبائو نے حکومت کو اصل واقعات بیان کرنے پر مجبور کیا۔ تو مرکزی وزیر داخلہ خان قیوم نے انکشاف کیا کہ مولانا شمس الدین ماوند میں آزاد ہیں۔
مجلس عمل
مولانا شمس الدین نے ۱۷؍اگست تک اپنی اکیس روزہ اس جبری ’’آزادی‘‘ میں سرزمین پاکستان پر ایرانی فوجیوں کے علاوہ کیا کچھ دیکھا؟ یہ سب کچھ وہ خود کراچی کے پریس کلب میں بتا چکے ہیں۔ اس لئے ہم فورٹ سنڈیمن کی طرف لوٹتے ہیں۔ جہاں ۱۶؍جولائی کو رضا کار دستے ترتیب دئیے جانے لگے تھے۔ تاکہ ہڑتال کو پرامن اور منظم رکھا جاسکے۔ مولانا شمس الدین کی گرفتاری تک وہی اس تحریک کے ’’فگر ہیڈ‘‘ تھے۔ اور ان کی نمایاں شخصیت سے محرومی نے ان لوگوں کے لئے جو درحقیقت تحریک کے روح رواں تھے۔ فوری طور پر تنظیم کا مسئلہ پیدا کردیا۔ خطرہ تھا چیدہ چیدہ علماء کی گرفتاری اور اس کے بعد مولانا شمس الدین کا اغواء تحریک کو بے سری کردے گا اور اس طرح یہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ شاید حکومت کایہی منشاء ہو۔ لیکن فورٹ سنڈیمن اور ضلع ژوب کے عوام کے احساسات جن بلندیوں پر تھے وہاں تنظیم اور نظم وضبط مشکل کام نہ تھا۔ چنانچہ ۱۷؍جولائی کو باقی ماندہ سیاسی شخصیتوں اور نمایاں شہریوں پر مشتمل نورکنی مجلس عمل بنائی گئی جس کے چیئرمین مولانا عماد الدین قریشی تھے۔ اس میں سابق ڈپٹی منسٹر جناب صالح محمد مندوخیل، عبدالرحیم ایڈووکیٹ، ملک یٰسین، مولانا صبغت اﷲ شیرانی، جناب شیر جان مندوخیل، حاجی عبدالواحد خان اپوزئی، حاجی محمد خان اور حافظ عبدالغفور شامل تھے۔ حافظ عبدالغفور پر مجلس عمل کی سیکرٹری شپ کے فرائض عائد کئے گئے۔ بعد میں ضرورت کے مطابق اس مجلس عمل کی توسیع جاری رہی۔