مجوسی تصورات نے اسلامی تصوف کے ذریعہ بانی احمدیت کے ذہن کو کس طرح متأثر کیا۔ بے حد دلچسپ ہوگی۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۵۲)
گویا مرزاقادیانی اسلام وقرآن سے یکسر نابلد اور سراسر یہودیت اور مجوسیت کے حلقہ بگوش ہیں۔
اور کہاں مولوی صاحب کا یہ ارشاد کہ: ’’علامہ مرحوم اس دنیا میں مرزاقادیانی ہی کو عاشق قرآن مانتے تھے۔‘‘
فرمائیے! ان دونوں میں باہم کوئی ربط ومماثلت ہے؟ اور پھر اس پر بس نہیں۔ اس خطبہ میں آگے چل کر فرماتے ہیں کہ: ’’اقبال کے اشعار کے اندر جو قرآن کی روح ہے وہ حضرت مرزا صاحب ہی کے تاثرات ہیں۔‘‘
العیاذ باﷲ! ’’اقبال کے کلام میں مرزاصاحب کے تاثرات‘‘ کیا اس سے بڑھ کر کوئی بہتان والزام اور کذب وافتراء ہوسکتا ہے اور ہم اس کے جواب میں لعنت اﷲ علی الکاذبین کے سوا اور کیا عرض کر سکتے ہیں۔
کہاں تو بہاء اﷲ ایرانی اور مرزاقادیانی سے متعلق علامہؒ کا یہ ارشاد جو جاوید نامہ (ص۲۳۵) میں شائع ہوکر شرق وغرب، عرب وعجم کے کروڑوں آدمیوں کی نگہ سے گذر چکا ہے اور لاکھوں آدمیوں کے سینے میں محفوظ اور زبان پر شب وروز مذکور ہے۔
آں زایراں بود دایں ہندی نژاد
آں ز حج بیگانہ وایں از جہاد
سینہ ہا از گرمی قرآن تہی
از چنیں مرداں چہ امید بہی
اور کہاں جناب مولوی صاحب کی یہ ’’صدری اور شکمی‘‘ روایت کہ دنیا میں صرف مرزاقادیانی ہی عاشق قرآن تھے۔ (رواہ مسلم یعنی مولوی محمد علی)
اسی خطبہ میں علامہؒ سے متعلق متعدد اور غلط بیانیاں ہیں جن سے بحث کرنا اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ ہم تو صرف یہ دکھلا رہے ہیں کہ لاہوری جماعت کے امیر کس طرح سفید جھوٹ بول کر مرزاقادیانی کے عشق الٰہی اور عشق رسول اور عشق قرآن کے افسانے دنیا کو سنا رہے ہیں۔