تیسرا الزام واتہام
سرنہاں کہ عارف وزاہد بہ کس نہ گفت
درحیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
تیسرا شرمناک الزام بطل حریت نقاش پاکستان حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کی ذات گرامی پر ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ یہ کہا کہ قرآن کے ساتھ عشق مرزاقادیانی ہی نے کیا۔ ’’ان ہذا الّا بہتان عظیم‘‘ اور مولوی صاحب یہ بہتان عظیم باندھتے ہیں اس لئے جری ہیں کہ علامہؒ اس دنیا میں موجود نہیں۔ اس لئے تردید کا بھی خوف وخطر نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت حکیم الامت نے یہ کس سے کہا اور کب کہا؟ اگر صرف مولوی صاحب سے کہا اور عالم خلوت میں کہا تو مولوی صاحب اب تک… جب کہ دنیا علامہ کو اس رنگ سے پیش کرتی رہی کہ وہ نہ صرف مرزاقادیانی کو کذاب ودجال کافر ومرتد سمجھتے ہیں بلکہ ان کے جملہ متبعین کو بھی خواہ وہ لاہوری ہوں یا قادیانی۔ مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج جانتے ہیں… کیوں علامہؒ کی اتنی زبردست شہادت مرزاقادیانی کی صداقت میں چھپائے بیٹھے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ نقاش پاکستانؒ سے پاکستانیوں کی عقیدت طوفان بڑھتا اور چڑھتا دیکھ کر اس طرف سے اپنے چندہ دینے والوں کو مطمئن کرنے کے لئے مولوی صاحب نے یہ سفید جھوٹ بولا ہے اور علامہؒ کی ذات پر ان کی وفات کے بعد یہ شرمناک بہتان والزام تراشا ہے۔ ورنہ علامہ کے عقائد وخیالات مرزاقادیانی اور مرزائیت… قادیانی ولاہوری پارٹی دونوں کے متعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس نمبر میں ہم حضرت ممدوح کے دو مضامین شائع کر رہے ہیں جن سے ان کے افکار عیاں ہیں۔
اﷲ اﷲ! جب انسان خوف خدا سے بے پروا اور دنیا کی لعن طعن سے بے لحاظ ہو جاتا ہے تو پھر اس کے منہ میں جو کچھ آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے اور اتنا بھی نہیں سوچتا کہ آخر دنیا کیا کہے گی؟
کہاں تو علامہ اقبالؒ کا یہ فیصلہ کہ:
۱… ’’قادیانیت اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے کہ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے… حتیٰ کہ مسیح موعود کی اصطلاح بھی اسلامی نہیں بلکہ اجنبی ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۳)
۲… ’’اب احمدیت کی روح پر غور کرنا ہے۔ اس کے ماخذ اور اس امر کی بحث کہ قبل اسلام