مولوی صاحب تو شاید فرمادیں کہ بایں ہمہ امراض وعلل حضرت صاحب تلاوت قرآن پاک سے غافل نہیں رہتے تھے۔ دست بکار دل بہ یار کے مصداق مجدد وقت بیمار وعلیل رہنے کے باوجود روزانہ ایک تہائی سے کچھ اوپر قرآن پڑھ لیتے تھے۔ آمنا وصدقنا! بجا ارشاد ہوا۔ لیکن اس کا کیا جواب ارشاد فرمائیے گا کہ حضرت صاحب خود فرمارہے ہیں کہ مجھ سے نفل طور پر ہزاروں قرآن تو کجا؟ فرض نماز میں قرأت قرآن بھی نہیں ہوسکتی۔ فرماتے ہیں: ’’حالت صحت اس عاجز کی بدستور ہے۔ کوئی وقت دوران سر سے خالی نہیں گزرتا… نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑی جاتی اور نہ بیٹھ کر اس دفع پر پڑھی جاتی ہے جومسنون ہے اور قرأت میں شاید قل ہو اﷲ! بمشکل پڑھ سکوں۔ کیونکہ ساتھ ہی توجہ کرنے سے تحریک بخارات کی ہوتی ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر۲ ص۸۸، مکتوبات احمدیہ جدید ج۲ ص۱۰۱، مکتوب نمبر۶۵)
(بقیہ حاشیہ جات گذشتہ صفحہ) ۳؎ ’’دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت نے پیش گوئی کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دوزردچادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں۔ ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی۔ یعنی مراق اور کثرت بول۔‘‘
(رسالہ تشحیذ الاذہان قادیان ماہ جون ۱۹۰۶ئ، اخبار بدر قادیان مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ئ، ملفوظات ج۸ ص۴۴۵)
۴؎ ’’مجھے دومرض دامنگیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں کہ سردرد اور دوران سر اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصے میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا یہ دونوں بیماریاں قریب ۲۰برس سے ہیں۔‘‘
(نسیم دعوت ص۶۸، خزائن ج۱۹ ص۴۳۵)
۵؎ ’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں… ہمیشہ دردسر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو پیشاب آتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۷۰،۴۷۱)
۶؎ صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحب ایم۔اے لکھتے ہیں کہ: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیر اوّل کی وفات کے چند دن بعد ہوا۔ اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۶، روایت نمبر۱۹)
۷؎ ’’مراق کا مرض حضرت قادیانی کو موروثی نہ تھا بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا۔‘‘
(رسالہ ریویو قادیان بابت اگست ۱۹۲۶ء ص۱۰)
۸؎ ’’میرا دل ودماغ اور جسم نہایت کمزور تھا اور علاوہ ذیابیطس اور دوران سر اور تشنج قلب کے دق کا اثر بھی بکلی دور نہ ہوا تھا… میری حالت مردی کالعدم تھی۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۰۹حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۵۸۷)
۹؎ مرزاقادیانی نے ۸۸۴اء میں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات ہوگئی۔ اگر ہزاروں جمع کے صیغہ سے کم ازکم تین ہزار ختم قرآن مراد لئے جائیں تو گویا مرزاقادیانی نے بایں ہمہ عورض وامراض ۲۴سال میں ۳۰۰۰ ختم قرآن کئے… یعنی سوادس پارے روزانہ۔