مسلمانوں کو ملی ہیں۔ بلاشبہ ہمارا جان ومال گورنمنٹ انگریزی کی خیرخواہی میں فدا ہے اور ہوگا اور ہم غائبانہ اس کے اقبال کے لئے دعاگو ہیں۔‘‘ (آریہ دھرم ص۵۸،۵۹، خزائن ج۱۰ ص۸۰،۸۱)
استغفراﷲ! العیاذ باﷲ!!
شعوروفکر کی یہ کافری معاذ اﷲ
فرنگ تیرے خیال و عمل کا ہے مسجود
بدن تھرّٰا اٹھتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسان لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ کس قدر جرأت وجسارت کا مظاہرہ ہے اور کس قدر بے باکانہ وگستاخانہ بیان ہے۔ چند روزہ مردود وملعون فرنگی حکومت کی جھوٹی خوشامد اور چاپلوسی کے مقابلہ میں سرور کائنات، سید الاولین والآخرین کی انتہائی توہین گوارا کر لیتے ہیں اور محسن گورنمنٹ کے پاس اور لحاظ میں مست ومدہوش ہوکر سید المعصومین پر زنا تک کے شرمناک الزام واتہام کا زہر شیرمادر کی طرح پی جاتے ہیں۔ بلکہ اس عیسائی گورنمنٹ کے قدموں پر جس کے عہد میں جس کی شہ پر اس کے ہم قوم عیسائی پادریوں نے اس قبیل کے دلدوز وجگر سوز اقدام کئے۔ نیک ذات مرزاقادیانی جان ومال فدا کرتے نظر آتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی اس گورنمنٹ کی نعمتوں کو فراموش نہ کرتے ہوئے ہر وقت غائبانہ اس کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ ملعون فرنگی حکومت نہ رہی اور پاکستان بن گیا تو پھر مسلمانوں کو یہ نعمتیں کہاں نصیب ہوں گی اور حضور رسول اکرمﷺ کی ذات اقدس واطہر پر پادریوں اور آریوں کی بدترین حملہ کی جرأت کیسے ہوسکے گی۔
حضرت مجدد وقت کے اس عظیم الشان کارنامے پر ہم سوائے اس کے اور کیا عرض کرسکتے ہیں ؎
رخ صبیح کلیسا پہ دل نثار نہ کر
جبین ملت بیضا کو داغدار نہ کر
رواست دانش افرنگ را پرستاری
مگرز احمد مرسل حیانمے داری
مرزاقادیانی کے اس غیرت کش اور اخلاق سوز بیان سے جہاں مولوی محمد علی کی مندرجہ بالا صداقت اور حق گوئی کا بھانڈا برانڈرتھ روڈ کے چوراہے پر بری طرح پھوٹ کر چور چور ہو جاتا ہے۔ وہاں اس سے مرزاقادیانی کے عشق خدا اور عشق رسول کی حقیقت بھی عریاں ہوکر سامنے آجاتی ہے اور آپ کی زندگی بھر کے اس کیریکٹر سے عشق الٰہی کا وہ جذبہ اور عشق رسول کی وہ جھلک روز روشن کی طرح واضح ہوکر دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ جس کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجایا جاتا ہے اور شب وروز جس کا پریس اور پلیٹ فارم سے گیت گایا جاتا ہے۔