بہتان وافتراء ہے۔ ہاں باقی جو کچھ ہم نے لکھا ہے۔ وہ ہم نے پوری دیانت وامانت کے ساتھ مرزاقادیانی کے ’’وحی والہام‘‘ یا پھر مرزائیت کے مسلم معتبر لٹریچر کی روشنی ہی میں لکھا ہے اور اسے ہم ہر سرکاری عدالت یا غیرسرکاری پنچائت کے سامنے ہر وقت ثابت کرنے کو تیار ہیں۔ بہرحال ؎
زباں گل جائے گر میں نے کہا ہو کچھ سر محشر
تمہاری تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں
یہ دین قادیانی جوودانی ہو نہیں سکتا
شاعر تنظیم حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب شوقی ابنالوی!
زمیں پر جب نکاح آسما۱؎نی ہو نہیں سکتا
تو پھر ہرگز پیمبر قادیانی ہو نہیں سکتا
وہ اپنے منہ میاں مٹھو بنے لیکن بایں صورت
مکاںکا رہنے والا لامکانی ہو نہیں سکتا
مرے خالق نے بخشا ہے مجھے اسلام سا مذہب
کوئی اس دین کا دنیا میں ثانی ہو نہیں سکتا
نبوت جس کی وابستہ ہو پائے اہل یورپ سے
وہ دنیا میں کبھی حق کی نشانی ہو نہیں سکتا
دلائل سے غرض کیا صرف اتنا جانتا ہوں میں
خدا والا اسیر بدزبانی ہو نہیں سکتا
ادھر اسلام کا دعویٰ ادھر کفار سے الفت
ہمیں تو اعتبار قادیانی ہو نہیں سکتا
جہاں میں دشمن ختم رسل موجود ہیں جب تک
دل ناشاد وقف شادمانی ہو نہیں سکتا
کہاں سے لائیں جرأت میرزائی بحث کرنے کی
مقابل امر حق کا نقش فانی ہو نہیں سکتا
جسے نعلین پوشی میں بھی دھوکا پیش آجائے
وہ ملت میں کسی جدت کا بانی ہو نہیں سکتا
گئے انگریز تو خود کاشتہ پودا بھی سوکھے گا
یہ دین قادیانی جاودانی ہو نہیں سکتا
جو دنیا میں شریک زمرہ باطل رہے شوقی
وہ عقبیٰ میں قرین کامرانی ہو نہیں سکتا
۱؎ محمدی بیگم سے نکاح آسمانی، مرزائے قادیانی کے تابوت مجددیت میں آخری کیل ہے۔ ۱۸۸۶ء سے ۱۹۰۷ء تک پورے اکیس سال کی شبانہ روز مسلسل جدوجہد، ازالہ اوہام، آئینہ کمالات، تبلیغ رسالت جلد اوّل، دوم، سوم، حقیقت الوحی، انجام آتھم وغیرہ بیسیوں کتابوں میں مندرجہ سینکڑوں حلفیہ آسمانی ارشادات اور ہزاروں اشتہاروں میں شائع شدہ مؤکد بعذاب قسمیہ ربانی الہامات کے علی الرغم جب آسمانی نکاح کا زمین پر نفاذ نہ ہوسکتا اور وقت کا نبی اور رسول یا بدرجہ اقل مسیح موعود مجدد اعظم مصلح اکمل اور امام اکبر اور امامت کا سب سے بڑا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)