اس کا بہترین جواب وہی ہے جو معزز معاصر ’’زمیندار‘‘ اپنے شذرہ میں دے چکا ہے کہ یہ اشاعت مرزائیت کی خدمت میں یہ کہہ کر پیش کی گئی ہے۔
قصۂ وصل عدو تجھ کو سنا جاتا ہوں
لے تجھے ہی ترا آئینہ دکھا جاتا ہوں
حضرت مسیح موعود کی گندی سے گندی تصویر کی ذمہ داری خود حضرت صاحب پر ہے۔ آئینہ میں تو وہی کچھ نظر آتا ہے جو اس کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس لئے معزز معاصر ’’پیغام صلح‘‘ کو… اس بھونڈے بھدے حبشی کی طرح جس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر غصے سے اسے زمین پر پٹک دیا تھا اور کہا تھا۔ کیا منحوس اور بدصورت آدمی ہے۔ ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کا ’’مرزاغلام احمد نمبر‘‘ دیکھ کر تنظیم پر غضبناک اور خشمگین ہونے کی بجائے خود مرزاقادیانی کے متعلق اپنے عقائد پر نظرثانی کی تکلیف گوارا فرمانی چاہئے کہ
کسی کی چشم می نیلگوں سے ہے میری بادہ آشای
کسی کے روئے رنگین سے میری رنگیں خیالی ہے
چیلنج
حقیقت یہ ہے کہ تنظیم نے صرف عکاسی کی ہے اور دیانتداری سے مرزاقادیانی کو ان کے اصلی رنگ اور روپ اور خدوخال میں منظر عام پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ’’پیغام صلح‘‘ دیانتداری سے یہ سمجھتا ہے کہ تنظیم نے یہ غلط الزامات مرزاقادیانی پر لگائے ہیں تو پھر ہم پوری قوت سے اپنے معاصر کو غیرمبہم الفاظ میں کھلا چیلنج کریں گے کہ وہ عدالت میں ہمارے خلاف مقدمہ دائر کردے۔ پھر دیکھئے ہم کس طرح سوائے شہرت رانی کے باقی سب اوصاف حمیدہ مرزاقادیانی ہی کے ارشادات عالیہ سے ثابت کرتے ہیں۔ رہا شہوت رانی کا سوال! تو ہم نے یہ الزام مرزاقادیانی پر لگایا ہی کب ہے؟ ہم نے تو الٹا ان کے حسب ذیل اقوال نقل کر کے ان کی قابل رحم حالت زار کا اظہار کیا تھا۔
۱… ’’صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوذ بکلی جاتا رہتا تھا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۴، مکتوبات احمدیہ جدید ج۲ ص۲۰، مکتوب نمبر۱۰)
۲… ’’میری حالت مردی کالعدم تھی۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۰۹، خزائن ج۱۸ ص۵۸۷)
صحبت کے وقت لیٹنے کی یہ حالت اور عدم مردمی کی یہ حالت تو کسی اور حالت کا پتہ دیتی ہے۔ اس حالت پر شہوت رانی کا تو گمان بھی نہیں گذر سکتا۔ لہٰذا یہ تو ہم پر سراسر الزام، اتہام اور