میں: احمدی صاحب! آپ اس بات سے مرزاقادیانی کی توہین کرتے ہیں۔ وہ تو دعویٰ کرتے ہیں نبوت کا۔ اور آپ کہتے ہیں مجدد ہی مان لو۔
مرزائی: ان کا دعویٰ نبوت کا تھا بھی اور نہیں بھی۔
میں: یعنی مثبت (+)اور منفی (-) ملکر برابر ہوا صفر کے۔ ایک وقت میں ایک چیز موجود بھی ہے اور معدوم بھی۔ خندۂ نور بھی ہے۔ ظلمت کی سیاہی بھی۔
مرزائی: میرا کہنا یہ ہے کہ آپ مطلق انکار نہ کریں۔ کچھ تو مانیں۔ وگرنہ میں تو ان کو نبی ہی مانتا ہوں۔
میں: آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔ آپ ان کو اضافتی نبی مانتے ہیں یا سادہ نبی۔
مرزائی: اس کا مطلب؟
میں: لاہوری پارٹی کی طرح ظلّی اور بروزی نبی مانتے ہیں یا صرف نبی؟
مرزائی: مستقل نبی بھی اور ظلّی بھی۔
میں: میں ظلّی اور بروزی کے جھگڑے میں پڑ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا اور نہ بحث کو طول دینا چاہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر بہ فرض محال یہ مان لیا جائے کہ باب نبوت قیامت تک کھلا ہے تو پھر مرزا قادیانی نبی کیسے ہوگئے۔ ان کے کردار، ان کے افعال اور ان کے اعمال سے آپ کو نبی تو بعد میں سہی پہلے مسلمان اور مومن تو ثابت کیجئے۔
مرزائی: وہ کیسے؟
میں: ایسے کہ قرآن اور حدیث شریف میں مسلم اور مؤمن کے لئے جن صفات اور جن اخلاق کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مرزا قادیانی میں وہ صفات ثابت کیجئے۔
مرزائی: ان کے اخلاق نہایت بلند تھے۔
میں: کیونکہ مرزا قادیانی نے حروف تہجی کا کوئی حرف بچا نہ رکھا جس کے تحت میں انہوں نے مسلمانوں کو گالیاں نہ دی ہوں۔ بالخصوص علماء کو جو وراثت الانبیاء ہیں۔
مرزائی: یہ کیا بات ہے۔ انسان تیزی میں کچھ کہہ ہی دیتا ہے۔ یہ معمولی بات ہے۔
میں: گالی گلوچ کرنا، فحش گو اور بدزبان ہونا۔ آپ کے نزدیک عیب نہیں اور معمولی بات ہے۔ لیکن خیال کیجئے کہ جو شخص ہدایات قرآن پاک اور حدیث شریف کے تحت زبان قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ وہ دل کے مذموم اور برے خیالات کو کیسے روک سکتا ہے اور اخلاق اﷲ سے کیسے متصف ہوسکتا ہے۔