رکھے تھے اور ابھی مزید آرہے ہیں۔ اس لئے ہم مجبور ہوگئے کہ نمبر کو دوبارہ شائع کر یں۔ آپ کا یہ مقبول ومحبوب نمبر چار صفحات کی ایزادی کے ساتھ ہدیہ قارئین کرام ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
عام صحافتی تاریخ میں تو نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن تنظیم اہل سنت کی تاریخ کا یہ پہلا موقعہ ہے کہ ہم بفضلہ تعالیٰ اس کا ایک خاص نمبر دوبارہ شائع کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ ’’والحمدﷲ علی ذالک حمداً کثیراً‘‘ اور اگر خدا کو منظور ہے تو اس کا تیسرا ایڈیشن بھی بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہوگا۔ جیسا کہ محترم المقام جناب شیخ فیض محمد صاحب سپیکر اسمبلی کی تجویز گرامی ہے۔
حق تعالیٰ اکابر ملت اور ارباب دولت کو عالی جناب شیخ صاحب کی مبارک تجویز کو جامۂ عمل پہنانے اور اس نمبر… جو برادران اسلام کے تحفظ ایمان کی ضمانت ہے… عامۃ المسلمین تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
معزز اکابر ملت اور مؤقر مسلم پریس کی آرائے گرامی آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن کیا آپ تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھیں گے؟ اور ان دوستوں کے تاثرات سے آپ بے خبر رہیں گے جن کی اصلاح وہدایت کی بفضلہ تعالیٰ اس نمبر کی اشاعت سے توقع کی جاسکتی ہے۔ حق تعالیٰ قبول حق اور رجوع عن الباطل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!
پیغام صلح کی فریاد وفغان
کفن اٹھاؤ نہ للّٰہ میرے چہرے سے
ہوں روسیہ مجھے رہنے دو منہ چھپائے ہوئے
لاہوری قادیانیوں کا ترجمان ’’پیغام صلح‘‘ اپنے افتتاحیہ میں رقمطراز ہے۔ ’’تنظیم اہل سنت‘‘ نے پیغام صلح کے مسیح موعود نمبر کا اعلان دیکھ کر ’’مرزاغلام احمد نمبر‘‘ کے نام سے ایک خاص پرچہ شائع کیا ہے۔ اس پرچہ میں شاید ہی کوئی مضمون ہو۔ جس میں حضرت مسیح موعود کی گندی سے گندی تصویر بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ جھوٹ، افترائ، بدزبانی، تہمت طرازی اور شہوت رانی وغیرہ کے الزامات آپ پر نہ لگائے گئے ہوں۔ آپ کے عشق قرآن کی بھی تردید کی گئی ہے اور عشق رسول کی بھی اور اس بات پر سارا زور صرف کیاگیا ہے کہ مرزاقادیانی کی ساری زندگی قرآن اور رسول کی مخالفت میں گذری۔‘‘ (۸؍جون ۱۹۴۶ئ)