حضرت امروہیؒ نے اپنے استاذ حضرت قاسم العلوم والمعارف کی طرح ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اپنی تحریر وتقریر سے باطل کو ابھرنے نہ دیا۔ باطل کی سرکوبی کرنا ان کا خاص نصب العین تھا۔ اس کام کو کہاں کہاں اور کس کس تدبیر سے انجام دیا اس کی تفصیل بھی مدنظر نہیں۔ مجھے اس مقالہ میں صرف حضرت محدث امروہیؒ کی اس جدوجہد کو ذکر کرنا ہے جو انہوں نے مرزاقادیانی کے مقابلہ میں کسی بدقسمتی سے امروہہ میں حکیم محمد احسن جو ایک اچھے خاندان کے فرد تھے مرزاقادیانی کے دام فریب میں آگئے اور قادیان سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا۔ قادیانی مذہب کے واقفین پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ حکیم محمد احسن امروہی اور حکیم نورالدین بھیروی قادیانیوں کے یہاں نعوذباﷲ شیخین کا مرتبہ رکھتے ہیں ان کو رضی اﷲ عنہ لکھا جاتا ہے۔ مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کا دارومدار انہیں دونوں کی دجل آمیز تحقیق پر تھا۔ حکیم محمد احسن نے اپنے محلہ کے قریب رہنے والے چند اشخاص کو مرزاقادیانی کی طرف مائل کر دیا تھا۔ حضرت مولانا امروہیؒ اور ان کے ذی استعداد شاگردوں نے حکیم محمد احسن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہ اپنی باطل وبیجا کوشش میں امید کے مطابق کامیاب نہ ہوسکے۔ ان لوگوں میں سے جو قادیانی کی طرف مائل ہوگئے تھے بعض لوگوں نے توبہ کر لی تھی۔ حضرت محدث امروہیؒ کو بڑا فکر تھا کہ ان کے وطن میں یہ فتنہ وباء کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مکتوب گرامی میں جو مولانا حافظ سید عبدالغنی صاحب پھلاؤدی کے نام ہے اس فتنہ کا ذکر فرماتے ہیں:
بندہ نحیف احقر الزمن احمد حسن غفرلہ!
بخدمت برادر مکرم جامع کمالات عزیزم حافظ مولوی محمد عبدالغنی سلمہ اﷲ تعالیٰ بعد سلام مدعا نگار ہے کہ… امروہہ میں اور خاص محلہ دربار (کلاں) میں ایک مرض وبائی مہلکہ یہ پھیل رہا (ہے) کہ محمد احسن جو مرزاقادیانی کا خاص حواری ہے اس نے حکیم آل محمد کو جو مولانا نوتویؒ سے بیعت تھے مرزاقادیانی کا مرید بنا چھوڑا اور سید بدرالحسن۱؎ کو جس نے مدرسہ میں مجھ ناکارہ سے بھی
۱؎ مولانا سید بدرالحسن امروہی حضرت امروہیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی آمدورفت حکیم محمد احسن امروہی قادیانی کے پاس رہنے لگی اور ان کی باتیں سن کر حیات مسیح علیہ السلام میں ان کو شک وتردد ہوگیا۔ بہت سے علماء نے ہر چند ان کو سمجھایا۔ بلکہ ان میں باطل کا اثر ہوگیا تھا۔ اس لئے کسی کی نہ سنتے تھے اور الٹا مناظرہ کرتے تھے۔ حضرت محدث امروہیؒ کو اس کی اطلاع ہوچکی تھی۔ ایک دن ان کو حضرت کے پاس لایا گیا۔ وہ خود بخود آئے۔ حضرتؒ نے ان کو دیکھ کر فرمایا! مولوی بدرالحسن، حقیقت میں تم ہمارے طبیب روحانی ہو۔ ہمیں غرور ہوچلا تھا کہ ہمارا شاگرد اور ہمارے پاس بیٹھنے والا باطل میں گرفتار نہیں ہوسکتا۔ اب معلوم ہوا کہ یہ بات غلط ہے تم نے ہمارا غرور توڑ دیا۔ نہ معلوم کہ کس جذبہ سے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ مولوی بدرالحسن زار زار رونے لگے اور قدموں پر لوٹے لوٹے پھرے اور اپنے فاسد عقیدہ سے توبہ کی۔ یہی بدرالحسن حضرتؒ کے ساتھ مجلس مناظرہ رامپور میں موجود تھے۔