کچھ پڑھا (ہے) مرزاقادیانی کی طرف مائل (کر دیا) ان دونوں کے بگڑنے سے محمد احسن کی بن پڑی۔ کن ترانیاں کرنی شروع کیں۔ طلبہ کے مقابلہ سے یون عقب گزاری (کی) احمد حسن میرے مقابلہ پر آوے، میں جب مناظرہ پر آمادہ ہوا اور یہ پیغام دیا کہ حضرت! مرزاکو بلائیے صرف راہ میرے ذمہ (یا) مجھ کو لے چلئے میں خود اپنے صرف کا متکفل (ہوں گا) بسم اﷲ آپ اور مرزا دونوں مل کر مجھ سے مناظرہ کر لیجئے یا میرے طلبہ سے مناظرہ کیجئے۔ ان کی مغلویب میری مغلوبی، تب مناظرہ کا دعویٰ چھوڑ، مباہلہ کا ارادہ کیا۔ بنام خدا میں اس پر آمادہ ہوا اور بے تکلف کہلا بھیجا۔ بسم اﷲ مرزاآوے، مباہلہ، مناظرہ جو شق وہ اختیار کرے میں موجود ہوں۔ (میں نے) اس کے بعد جامع مسجد (امروہہ میں) ایک وعظ کہا اور اس پیغام کا بھی اعلان کر دیا اور مرزاقادیانی کے خیالات فاسدہ کا پورا رد کیا۔
کل بروز جمعہ دوسرا وعظ ہوا جو بفضلہ تعالیٰ بہت پرزور تھا اور بہت زور کے ساتھ یہ پکار دیا کہ دیکھو مولوی فضل حق کا یہ اشتہار مطبوعہ (اور) میرا یہ اعلان مرزاقادیانی کو کوئی صاحب لوجہ اﷲ غیرت دلائیں۔ کب تک خلوت خانہ میں چوڑیاں پہنے بیٹھے رہو گے؟ میدان میں آؤ اور اﷲ برتر کی قدرت کاملہ کا تماشا دیکھو کہ ابھی تک خدا کے کیسے کیسے بندے تم جیسے دجال امت کی سرکوبی کے واسطے موجود ہیں۔ اگر تم کو اور تمہارے حوارین کو غیرت ہے تو آؤ۔ ورنہ اپنے ہفوات سے باز آؤ۔ بفضلہ تعالیٰ ان دونوں وعظوں کا اثر شہر میں امید سے زیادہ پڑا اور دشمن مرعوب ہوا۔
پیشین گوئی تو یہ ہے کہ نہ مباہلہ ہو نہ مناظرہ۔ مگر دعا سے ہر وقت یاد رکھنا مولانا گنگوہی مدظلہ (اور) مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی نے بہت کلمات اطمینان تحریر فرمائے ہیں۔ ارادہ (ہے) دو چار وعظ اور کہوں۔ (۲۰؍ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ، مطابق یکم؍مارچ ۱۹۰۲ء از امروہہ)
خود حضرت محدث امروہیؒ نے مرزاقادیانی کو براہ راست بھی ایک مکتوب گرامی تحریر فرمایا جو قادیانیوں کی روئیداد مباحثہ رامپور میں درج ہے۔ حضرت تحریر فرماتے ہیں: ’’بسم اﷲ آپ تشریف لائیے! میں آپ کا مخالف ہوں۔ آپ مسیح موعود نہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔ آپ اپنے کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں بنام خدا مستعد ہوں، خواہ مناظرہ کیجئے یا مباہلہ آپ اپنے اس دعویٰ کا احادیث معتبرہ سے ثبوت دیجئے۔ میں انشاء اﷲ تعالیٰ اس دعوے کی قرآن واحادیث