تصو۱؎یر قاسم کہا جاتا تھا۔ حضرت مولانا نانوتویؒ ہی کے زمانے میں وہ کافی شہرت حاصل کر چکے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ خورجہ اور مدرسہ عبدالرب دہلی میں مسند صدرارت پرفائز رہے۔ بعدہ ۱۲۹۶ھ میں وہ حضرت نانوتویؒ کے ایماء سے مدرسہ شاہی مراد آباد کے سب سے پہلے صدر المدرسین ہوئے۔ ۱۳۰۳ھ میں مدرسہ شاہی سے مستعفی ہوکر مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کی داغ بیل ڈالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مدرسہ بام عروج پر پہنچ گیا اور ملک وبیرون ملک سے جوق درجوق تشنگان علوم اس دارالعلوم میں آتے رہے۔ حضرت محدث امروہیؒ کی شخصیت اور حضرت نانوتویؒ کی نسبت کی وجہ سے یہ مدرسہ بھی دیوبند اور سہارنپور کے مدارس سے کسی طرح کم نہ تھا۔ حضرت محدث امروہیؒ کے شاگرد رشید جو حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہیؒ کے بھی شاگرد نیز حضرت حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ومجاز یعنی مفسر قرآن حضرت مولانا حافظ عبدالرحمن صدیقی محشی بیضاوی، حافظ عبدالغنی صاحب پھلاودیؒ اور دیگر باکمال اساتذہ نے اس مدرسہ کو حضرت امروہیؒ کی رفاقت میں چلایا۔ استاذ القراء حضرت قاری ضیاء الدین الہٰ آبادی نے اس مدرسہ میں درس تجوید دیا اور یہیں دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغ حاصل کی۔ مولانا سید علی زینبی امروہی بابائے طب حکیم فرید احمد عباسی، مولانا محمد امین الدین مترجم نفیسی جیسے سینکڑوں باکمال حضرات نے جو اپنے اپنے علاقوں میں صاحب درس وفتویٰ ہوئے اور تعلیم وتبلیغ کا کام انجام دیا اس چشمۂ فیض سے سیرابی حاصل کی۔
پروفیسر عبدالعزیز میمن نے بھی اس مدرسہ میں کچھ عرصہ تعلیم پائی ہے۔ معقول ومنقول کی انتہائی تعلیم اس درسگاہ میں ہوتی تھی۔ یہاں کے فارغ شدگان کی ایک طویل فہرست ہے جس کو یہاں درج کرنا مقصود نہیں۔
۱؎ حضرت شیخ الہندؒ نے حضرت محدث امروہیؒ کا مرثیہ لکھا ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:
گم ہوئی آج صد حسرت ہمارے ہاتھ سے
حضرت قاسم نشانی دے گئے تھے اپنی جو
سید العلماء امام اہل عقل واہل نقل
پاک صورت پاک سیرت صاحب خلق نکو
جب شبیہ قاسمی سے بھی ہوئے محروم ہم
تم ہی بتلا دو کہ پھر ہم کیا کریں اے دوستو!
لوگ کہتے ہیں کہ چلے علامہ احمد حسن
اور میں کہتا ہوں وفات قاسمی ہو نہ ہو
کامل واکمل سبھی موجود ہیں پر اس کو کیا؟
جو کہ مشتاق ادائے قاسم خیرات ہو
اپنی اپنی جائے پر قائم ہیں سب اہل کمال
پر جگہ استاد کی خالی پڑی ہے دیکھ لو
بادل پریاس آئی کان میں میرے صدا
حک ہوئی تصویر قاسم صفحۂ ہستی سے لو
(۱۴۳۰ھ)