اور قیامت کے قریب پھر آسمان سے تشریف لانے پر احادیث نبویہ نیز دلائل عقلیہ سے استدلال کر کے اسے ثابت کیا ہے۔ مولانا نے مسئلہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر اس تفصیل کے ساتھ کلام قادیانی فتنہ کے ہی پیش نظر کیا ہے اور قادیانی تلبیسات کا اچھی طرح جائزہ لے کر برافگندہ نقاب کیا ہے۔ اسی لئے یہ باب کتابی شکل میں مصنف کے پیش لفظ کے ساتھ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے پاکستان کے ایک ادارہ (ادارہ نشریات اسلام رحیم یارخان) نے علیحدہ شائع کر دیا ہے۔ اس میں مولانا نے اپنے خاص محققانہ اسلوب میں بہت بصیرت افروز اور علمی طریقہ پر نزول مسیح کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ کا اثبات اور مرزائی دعوائے مسیحیت کا ابطال کیا ہے۔ موصوف نے بحث کا آغاز ہی ایک نسبتہً اچھوتے اور مؤثر انداز میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ونزول بے شک عالم کے عام دستور کے خلاف ہے۔ لیکن ذرا اس پر بھی تو غور کیجئے کہ ان کی ولادت کیا عالم کے عام دستور کے موافق ہے؟ ان کا نزول عالم کے درمیانی واقعات میں سے نہیں بلکہ عالم کے تخریب کی علامات میں شمار ہے اور ’’تخریب عالم‘‘ یعنی قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک علامت بھی ایسی نہیں جو عالم کے عام دستور کے موافق ہو۔‘‘
(نزول مسیح ص۶)
اس بارے میں علامہ کشمیریؒ کے ایک اور شاگرد حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کی قلمی کاوشوں کا ذکر نہ کرنا موصوف کے ساتھ ہی نہیں، موضوع کے ساتھ بھی ناانصافی ہو گی۔ مولانا نعمانی کے قلم کی سادگی اور پرکاری عوام بالخصوص بے پڑھے لکھے یا بہت کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے جس درجہ مفید اور مؤثر ہوتی ہے اس کا مقابلہ نیز دلوں میں اتر جانے والے ان کے انداز تحریر کا اثر عام لوگ جتنا لیتے ہیں اس کی برابر کم سے کم موجودہ فضلائے دارالعلوم میں شاید ہی کوئی کر سکے۔ مولانا محترم کے اپنے اسی خاص طرز میں مختصر مگر نہایت جامع اور مؤثر دو رسالے ’’قادیانیت پر غور کرنے کا سیدھا راستہ‘‘ اور ’’قادیانی کیوں مسلمان نہیں‘‘ عام طور پر قادیانیت کے توڑ میں جتنے مفید بلکہ سمّ قادیانیت کے بارے میں عوام کے لئے جس درجہ اکسیر ہیں اس میں غالباً اس درجہ کی کسی اور کتاب کا نام لینا مشکل ہوگا۔ البتہ دارالعلوم کے مستفیدین میں عالمی شہرت کے حامل مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’قادیانیت‘‘ خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے مرزائیت کے زہر کا تریاق فراہم کرتی ہے۔ مولانائے محترم نے اس گروہ کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح ومذاق کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے عصری اسلوب میں یہ کتاب لکھی ہے اور ایک خاص بات یہ تحریر فرمائی ہے جس کے لئے بعض غیرمسلم ہندوستانیوں کے مضامین بطور حوالہ پیش کئے ہیں کہ