فتح الملہم میں ہے: ’’قال الطیبی المعنیٰ یؤمکم عیسیٰ حال کونہ فی دینکم (ج۲ ص۳۰۳)‘‘ {طیبیؒ فرماتے ہیں۔ ’’یؤمکم‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمہاری امامت کریں گے۔ ان کے ہونے کی حالت میں تمہارے دین پر۔}
مرقات المفاتیح میں ہے: ’’ای یؤمکم عیسیٰ حال کونہ من دینکم (ج۵ ص۲۲۲)‘‘ {امامت کریں گے عیسیٰ علیہ السلام ان کے ہونے کی حالت میں تمہارے دین پر۔}
ایک نکتہ
ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ زیربحث حدیث میں رسول اﷲﷺ نے امت محمدیہ کی خوش قسمتی اور نصیبہ وری کو بیان فرمایا ہے۔ ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘ {تم کتنے اچھے اور خوش قسمت ہو گے جب تم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔ حالانکہ تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔}
اس خوش قسمتی کی دو ہی شکل ہوسکتی ہے۔ تیسری نہیں۔
۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہوتے ہوئے، امت محمدیہ کا یہ اعزاز ہو کہ امامت امت کا ہی کوئی فرد کرے۔
ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: ’’کیف حالکم وانتم مکرمون عند اﷲ تعالیٰ والحال ان عیسیٰ ینزل فیکم وامامکم منکم وعیسیٰ علیہ السلام یقتدی بامامکم تکرمۃ لدینکم ویشہد لہ الھدیث الاٰتی (مرقات المفاتیح ج۵ ص۲۲۲)‘‘ {کیا حال ہوگا تمہارا (یعنی تم کتنے خوش قسمت ہو گے کہ) اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی قابل اعزاز واکرام ٹھہرو گے۔ حال یہ کہ عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا اور عیسیٰ علیہ السلام تمہارے امام کی اقتداء کریں گے۔ تمہارے دین کے اعزاز کو ظاہر کرتے ہوئے اور اس کی تائید آنے والی حدیث (روایت جابرؓ) بھی کرتی ہے۔} (یہ حدیث گذر چکی ہے)
۲… امامت حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام ہی کریں۔ لیکن اپنی شریعت کے مطابق نہیں ہیں، بلکہ امت محمدیہ کو عطا کردہ شریعت کے مطابق، جیسا کہ ابن ابی ذئب کی روایت سے پتہ چلا۔
دونوں میں سے جو مفہوم بھی لیا جائے۔ قادیانی حضرات کا یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوسکتا کہ امامت کرنے والے عیسیٰ امت محمدیہ میں سے ہوں گے۔ وہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نہ ہوں گے۔ جن کے متعلق رفع الیٰ السماء کا عقیدہ ہے۔