سے محفوظ اور صحیح وسالم رہے۔ چنانچہ اس کی ذمہ داری بھی اسی علیم وقدیر نے خود لے کر اعلان بھی ہمیشہ باقی رہنے والی اپنی کتاب میں فرمایا: ’’وانا لہ لحافظون‘‘ لیکن عالم اسباب میں جس طرح اس کی صفت ربوبیت ورزاقیت کبھی شفقت مادری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی زمین سے روئیدگی کی صورت میں۔ اسی طرح اس نے اپنے خاص بندوں کو توفیق بخش کر دین قیم کی حفاظت کا سامان کیا۔ جس کی اطلاع اسی کے صادق ومصدوق پیغمبرﷺ نے مختلف پیرایوں میں دی۔ مثلاً ایک موقع پر فرمایا: ’’یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین (مشکوٰۃ المصابیح ج۱ ص۳۶، مطبوعہ اصح المطابع دہلی، بحوالہ بیہقی)‘‘
ایک اور ارشاد یہ ہے: ’’لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علے الحق لا یضرہم من خذلہم حتیٰ یأتی امراﷲ (صحیح مسلم ج۲ ص۱۴۳، مطبوعہ مکتبۃ رشیدیہ دہلی)‘‘
چنانچہ یہ عدول اور طائفہ منصورہ ہر اس موقع پر کبھی سربکف اور کبھی دست بقلم، میدان میں آیا جب بھی دین کامل کو تحریف یا اور کسی طرح کا خطرہ پیش آیا۔ اس پر امت مسلمہ کی پوری تاریخ گواہ ہے۔ خواہ وہ خطرہ صدر اوّل میں مسیلمہ کذاب کی شکل میں آیا ہو یا چودھویں صدی کے مسیلمہ پنجاب کی صورت میں۔
اس وقت وقت کی قلت کی بناء پر پوری تاریخ تو کیا اس کا مختصر ترین حصہ بھی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ آخرالذکر فتنہ کے ظہور کے بعد سے اس مؤید ومنصور جماعت کے چند افراد کی مساعی جمیلہ کا تذکرہ کر کے سعادت دارین کا سامان اپنے لئے فراہم کرنا مقصود اصلی ہے۔ (یہاں یہ بتانا بھی غیرضروری ہی معلوم ہورہا ہے کہ اس مختصر سے وقت میں چند افراد کے تمام کارناموں کا بھی مکمل جائزہ لینا مشکل بلکہ ناممکن ہے)
راقم نے اپنے لئے جیسا کہ مقالہ کے عنوان سے ظاہر ہے۔ ردقادیانیت پر ’’فضلاء دارالعلوم کی تصنیفی خدمات‘‘ عنوان اختیار کیا ہے۔ یہ عنوان بظاہر محدود مختصر ہونے کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ اپنے اندر سمندر جیسی وسعت وپہنائی رکھتا ہے اور شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس ’’دارالعلوم‘‘ کے تمام فضلاء کا نہیں، صرف اس کے ایک فاضل (اور گل سرسبد) علامہ کشمیریؒ کی خدمات کا اگر تفصیلی تذکرہ کیا جائے تو مجھ جیسا بے بضاعت بھی آپ لوگوں کا یہ سارا وقت لے کر بھی غالباً آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔