عام مخلوقات کے لئے تو اتنی رہنمائی کافی تھی۔ مگر اہل عقول، جن وانس، اس تکوینی ہدایت کے علاوہ ایک دوسری ہدایت کے بھی محتاج تھے اور وہ تھی روحانی یا تشریعی ہدایت۔ کیونکہ تکوینی ہدایت انسان کی صرف مادی ضروریات پوری کرتی ہے۔ جب کہ انسان کا قلب وضمیر، اور عقل وفہم، جن کی وسعت پذیری کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے زیادہ ہدایت ربانی کے محتاج تھے سورۂ فاتحہ میں ان کو جو دعا تلقین فرمائی گئی ہے اور جسے باربار پھیرنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے وہ ’’اہدناالصراط المستقیم‘‘ (الٰہی! ہمیں سیدھا راستہ دکھلا دیجئے) ہے یہ دعا واضح کرتی ہے کہ انسان کے لئے تکوینی اور مادی ضروریات سے بھی اہم اور مقدم روحانی اور تشریعی ہدایت ہے۔ پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ اس کی مادی ضروریات کا تو سامان کریں مگر اس کی سب سے اہم ضرورت سے صرف نظر فرمالیں؟ چنانچہ اﷲتعالیٰ کی رحمت خاصہ اور ربوبیت کاملہ نے انسان کی اس ضرورت کا بھی انتظام فرمایا اور سب سے پہلے انسان سیدنا حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام مرسل بھی تھے اور مرسل الیہ بھی تھے۔ اﷲتعالیٰ سے ہدایات حاصل فرماتے تھے اور اس کے مطابق زندگی گذارتے تھے۔ پھر ان کے ذریعہ ان کی اولاد تک اﷲتعالیٰ کی ہدایت پہنچی۔
روحانیت کا یہ نظام ہزاروں سال تک اپنے ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ تاآنکہ اس کی ترقی حد کمال پر جا کر رک گئی اور اپنی تمام تابانیوں کے ساتھ آفتاب ہدایت طلوع ہوا۔ جس کی ضیاپاشی سے عالم کا چپہ چپہ روشن ہوگیا اور دنیا نجوم وکواکب کی روشنی سے مستغنی ہوگئی اور انسانیت کو یہ مژدۂ جانفرا سنایا گیا کہ: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اورمیں نے تم پر اپناانعام تام کردیا اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین بننے کے لئے پسند کر لیا۔}
ساتھ ہی دین اسلام کی حفاظت کا اعلان بھی فرمایا گیا کہ: ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر:۹)‘‘ {بے شک ہم ہی نے نصیحت (قرآن کریم) نازل فرمائی ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔}
جب دین پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، اﷲتعالیٰ کی نعمتیں تام ہوگئیں اوردین اسلام کی قیامت تک کے لئے حفاظت کی ذمہ داری اﷲتعالیٰ نے لے لی۔ تو اب سلسلہ نبوت رسالت کی کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اس لئے ایک سلسلہ بیان میں صاف اعلان کر دیا گیا کہ: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:۴۰)‘‘