دوسرے یہ کہ سارے ملک اور ملت اسلامی کی بدنصیبی کہیئے، انگریزوں کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جس سے وہ سودے بازی کر سکیں اور وہ سودے بازی یہ کہ (الف)اس شخص کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی مخالفت سے باز رکھ سکیں۔ (ب)مسلمانوں کے اندر سے جذبۂ جہاد کو ختم کر سکیں۔ (ج)مسلمانوں کو اپنا وفادار اور اطاعت گذار بنا سکیں۔
ان تین مقاصد کے لئے انگریز کسی کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتے تھے۔ انگریز جانتے تھے کہ مسلمان دین کے معاملے میں خاصے جذباتی ہوتے ہیں۔ قرآن دین اور رسول کا نام لے کر اس قوم سے بڑے سے بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ برے بھلے اور دین میں غلط یا صحیح کی تمیز کرنے کی زحمت بھی نہیںکرتے۔ چنانچہ انہیںمسلمانوں میں ایک ایسے ہی شخص کی تلاش تھی جو دین کے نام پر مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر ان کا یہ مقصد پورا کر سکے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ سودا قبول کر لیا اور ’’بئسما اشتروا بہ ثمناً قلیلاً‘‘ کی خفگی کو نظرانداز کر کے یہ خدمت انجام دینے لگے۔ چنانچہ مرزاقادیانی میں انگریز پرستی جنون کی حد تک موجود تھی۔ اپنی تقریر، تحریر اور عمل سے وہ اس کا ثبوت دیتے رہتے تھے اور ہر اس مجاہد یا جماعت مجاہدین کو گالیوں، طعنوں اور سب وشتم سے نوازتے رہتے تھے جو انگریزوں سے مقابلہ کر رہے تھے یا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ ۱۸۵۷ء کے شریک اور شہداء کو انہوں نے ’’بے رحم، کم عقل، بداخلاق، بے انصاف، چور، قزاق، حرامی، اپنے محسن گورنمنٹ انگریز پر حملہ آور‘‘ یہ سب کچھ بتایا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ یہ شخص اور اس کی جماعت انگریزوں کا ہی پیدا کردہ پودا اور انگریزوں ہی کے رحم وکرم پر باقی تھا۔ بڑھ رہا تھا۔ اس بارے میں مولانا علی میاں نے بہت عمدہ نفسیاتی تجزیہ فرمایا ہے: ’’علمی اور تاریخی حیثیت سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قادیانیت فرنگی سیاست کے بطن سے وجود میں آئی ہے۔‘‘
آگے مولانا علی میاں کا بیان ہمارے اس خیال کے لئے سند کا درجہ رکھتا ہے۔ مولانا سید احمد شہید، سوڈان میں شیخ محمد احمد سوڈانی، جمال الدین انصاری کی تحریک اور جذبہ جہاد کا ذکر فرماکر تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ سرگرمیاں برطانوی حکومت کے لئے پریشانی اور تشویش کا باعث تھیں۔ اس نے ان سب خطرات کو محسوس کیا۔‘‘
اور پھر مولانا انگریزوں کی چالبازیوں کا ذکر فرماتے ہیں: ’’اس نے مسلمانوں کے مزاج وطبیعت کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ان کامزاج دینی مزاج ہے۔ دین ہی انہیں