مقدمہ بازی کا مشغلہ
آنجہانی مرزا نے منشی سے مختار بن جانے کی ہوس میں سیالکوٹ کے زمانۂ قیام میں مختاری کا امتحان بھی دیا تھا۔ استعداد کی کمی کی بناء پر اس امتحان میں ناکام رہے اور مختاری کے منصب پر فائز ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ پھر بھی اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ قانون مروجہ کی موشگافیوں سے کسی حد تک واقف ہوگئے۔ چنانچہ مختاری کے امتحان میں ناکامی اور منشی گیری کی نوکری سے دلبرداشتہ ہوکر جب قادیان واپس لوٹے تو ان کے والد نے خاندانی مقدمات کی پیروی کی خدمت ان کے سپرد کر دی۔ مرزاقادیانی خود بتاتے ہیں کہ: ’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباواجداد کے دیہات دوبارہ حاصل کرنے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے لگادیا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۱، خزائن ج۱۳ ص۱۸۲ حاشیہ)
مقدمہ بازی میں مرزاقادیانی کی اس قدر شغف تھا کہ خواب بھی دیکھتے تو اسی کا جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں: ’’ہمارا ایک مقدمہ موروثی اسامیوں پر تھا۔ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہوگئی۔‘‘ (تذکرہ ص۸۰۷، طبع سوم)
اسی طرح کے ایک خواب کا تذکرہ (تریاق القلوب ص۳۷، خزائن ج۱۵ ص۲۰۶ حاشیہ) پر بھی کیا ہے۔
اپنے شرکاء کی اراضی پر غاصبانہ قبضہ
آنجہانی مرزاقادیانی کے تحریری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد غلام مرتضیٰ اور ان کے بھتیجوں ودیگر اقرباء کی کچھ زمین سکھوںنے اپنے عہد حکومت میں ضبط کر لی تھی۔ جسے انگریزی عہد سلطنت میں بذریعہ عدالت انہوں نے دوبارہ واگذار کرایا۔ بعد میں اس زمین پر آنجہانی مرزاقادیانی اور ان کے بھائی غلام قادر بلا شرکت غیرے قابض ومتصرف ہوگئے اور دیگر حقدار رشتہ داروں کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ بالآخر ان حقداروں نے مرزااعظم بیگ لاہوری پنشنر اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کے تعاون سے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور مرزاقادیانی کے علی الرغم بذریعہ عدالت اپنا حصہ حاصل کر لیا۔ غم نصیب حقداروں کی اس اعانت پر مرزااعظم بیگ کی شکایت کرتے ہوئے آنجہانی لکھتے ہیں: ’’میرے والد کے انتقال کے بعد مرزااعظم بیگ لاہوری نے شرکائے ملکیت قادیان کی طرف سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزاغلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کر دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ ان شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں ۔