کرتے تھے کہ: ’’انگریزی نہیں جانتا۔ اس کوچہ سے بالکل ناواقف ہوں۔ ایک فقرہ تک مجھے معلوم نہیں۔ مگر خرق عادت کے طور پر اس زبان میں بھی مجھے الہام ہوتے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۳۸، خزائن ج۱۸ ص۵۱۶)
لیکن آنجہانی کا یہ دعویٰ بھی دروغ مصلحت آمیز پر مبنی تھا۔ کیونکہ انہوں نے سیالکوٹ میں دوران ملازمت انگریزی کی دو ایک کتابیں سبقاً سبقاً پڑھی تھیں اور اسی کے نتیجہ میں انگریزی کے ٹوٹے پھوٹے جملے بول اور لکھ لیا کرتے تھے۔ میاں بشیر احمد لکھتے ہیں۔ ’’مولوی الٰہی بخش ڈسٹرکٹ انسپکٹر نے منشیوں کے لئے ایک انگریزی کا مدرسہ قائم کیا تھا۔ ڈاکٹر امیر شاہ پنشنر معلّم تھے۔ حضرت مسیح موعود نے بھی انگریزی کی دو ایک کتابیں پڑھیں۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۱۵۵، روایت نمبر۱۵۰)
کچہری کی منشی گیری
کچہری سیالکوٹ کی ملازمت بھی انگریزی نبی کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ مرزاقادیانی کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی حکومت نے مرزاغلام مرتضیٰ کے لئے تاحین حیات سات سو روپے سالانہ کی پنشن مقرر کر دی تھی۔ اس پر خاندان کے گذر بسر کا مدار تھا۔ ایام شباب میں ایک مرتبہ مرزاقادیانی نے اس رقم کو وصول کر کے عیش کوشیوں اور جوانی کی رنگ رلیوں میں اڑادی۔ بعد میں ہوا وہوس کا نشہ جب کچھ اترا تو یہ شرمندگی دامن گیر ہوئی کہ کون سا منہ لے کر گھر جائیں۔ اس لئے قادیان واپس آنے کے بجائے سیالکوٹ چلے گئے اور وہیں اپنے مکتب کے ساتھی لالہ بھیم سین کی سعی وکوشش سے پندرہ روپے ماہانہ پر کچہری میں منشی مقرر ہوگئے۔
عہد ملازمت
مرزا زادے بشیر احمد لکھتے ہیں کہ: ’’مرزاصاحب نے دوران ملازمت اپنا دامن رشوت ستانی سے ملوث ہونے نہیں دیا۔‘‘ لیکن مرزا کے اکثر واقف کار اطلاع دیتے ہیں کہ انہوں نے بزمانۂ ملازمت دل کھول کر رشوتیں لیں۔ چنانچہ مرزااحمد علی شیعی اپنی کتاب دلیل العرفان میں لکھتے ہیں کہ منشی غلام احمد امرتسری نے اپنے رسالہ ’’نکاح آسمانی کے راز ہائے پنہانی‘‘ میں لکھا تھا کہ مرزاقادیانی نے زمانہ محرری میں خوب رشوتیں لیں۔ یہ رسالہ مرزاقادیانی کی وفات سے آٹھ سال پہلے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوگیا تھا۔ مگر مرزاقادیانی نے اس کی تردید نہیں کی۔