نہیں ہوگا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن وحدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ ص۳۹۴)
نبی بننے کی خواہش میں ان جھوٹے دعوؤں کے بعد ’’دروغ گورا حافظہ نبا شد‘‘ کی بہترین مثال ملاحظہ کیجئے کہ بقلم خود آنجہانی مرزا کیا لکھ رہے ہیں: ’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کی کتابیں مجھے پڑھائیں۔ اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر قریباً دس سال کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا… میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔ اس کے بعد جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ (ان) مولوی صاحب سے میں نے نحو، منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو حاصل کیا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۸تا۱۵۰، خزائن ج۱۳ ص۱۷۹تا۱۸۱)
مرزاقادیانی کے پہلے استاذ فضل الٰہی قادیان کے باشندے اور حنفی تھے۔ دوسرے فضل احمد فیروزوالہ کے رہنے والے اہل حدیث تھے اور تیسرے استاذ گل علی شاہ متوطن بٹالہ شیعہ تھے۔ (سیرت المہدی ج۱ ص۱۲۱، روایت نمبر۱۲۹)
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
مرزاقادیانی نے اپنے تیسرے استاذ گل علی شاہ کے بارے میں یہ جھوٹ لکھا ہے کہ میرے والد نے ان کو نوکر رکھا تھا۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے والد غلام مرتضیٰ ان کے دسترخوان کے ریزہ چین تھے۔ تفصیل کے لئے (مرأۃ القادیانیہ، مؤلفہ مرزا احمد علی امرتسری ص۲۹ ف۳) ملاحظہ کیجئے۔
مرزاقادیانی کے اس بیان سے جہاں ان کا پہلا دعویٰ کہ: ’’میں نے کسی انسان سے قرآن وغیرہ کا ایک سبق نہیں پڑھا ہے۔‘‘ غلط ہو جاتا ہے۔ وہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مرزاقادیانی کی تعلیم ناقص اور ادھوری تھی اور وہ ’’نیم ملّا خطرۂ ایمان‘‘ کے سچے مصداق تھے۔
انگریزی زبان میں معمولی واقفیت
انگریزی نبی کو بقول خود انگلش میں بھی الہام ہوا کرتے تھے اور نہایت فخر سے کہا