سپرد قلم کی۔ ’’میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب آئے تھے۔‘‘ ان انکشافات سے ان کی ذات چارقوموں کا معجون مرکب معلوم ہوتی ہے۔ یعنی وہ بیک وقت مغل، یہودی، سید اور چینی سب تھے۔ خامہ انگشت بدندان ہے اسے کیا لکھئے۔
مرزاکے والد غلام مرتضیٰ بیگ کی عملی حالت
آنجہانی انگریزی نبی کے منجھلے لڑکے میاں بشیر احمد ایم۔اے لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارے دادا مرزاغلام مرتضیٰ بے نمازی تھے۔ یہاں تک کہ ۷۵سال کی عمر میں پہنچ کر بھی نماز نہیں پڑھی۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۲۳۱، روایت نمبر۲۲۴)
مرزاکے ایام طفلی
اﷲتعالیٰ کے منتخب اور برگزیدہ بندوں کے پچپن کے برعکس مرزاقادیانی کے ایام طفلی دیگر بازاری بچوں ہی کی طرح نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ان کی سوانح حیات سیرت المہدی میں درج ہے کہ: ’’ایک مرتبہ مرزاکے ہم عمر لڑکوں نے ان سے کہا گھر سے شکر لاؤ۔ گھر گئے تو وہاں پسا ہوا نمک رکھا تھا۔ اسے شکر سمجھ کر چپکے سے جیب میں بھر لیا اور لڑکوں کے سامنے پہنچ کر پھانکنا شروع کر دیا۔‘‘ (سیرت المہدی ج۱ ص۲۴۴، روایت نمبر۲۴۴)
انگریزی نبی صاحب کو بچپن میں چڑیوں کے پکڑنے کی بھی عادت تھی۔
(سیرت المہدی ج۱ ص۴۵، روایت نمبر۵۱)
تعلیمی لیاقت
حضرات انبیاء علیم الصلوٰۃ والسلام کے علوم ومعارف تمام تر موہبت ربانی پر موقوف ہوتے ہیں۔ اپنے جیسے انسان سے تعلیم وتعلم اور اخذ فیض سے ان کی زندگی بالکل پاک ہوتی ہے۔ اس لئے انگریزی نبی کو بھی یہ فکر ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو امی ثابت کریں۔ لیکن ان کا اسکولوں میں پڑھنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو خود مرزاقادیانی بھی اپنے دجل وفریب سے چھپانہ سکے۔ حضرات انبیاء ورسل کی اس صفت خاص میں ہمسری وبرابری کی ناکام کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’امام الزماں کے لئے لازم ہے کہ وہ دینی امور میں کسی کا شاگرد نہ ہو، بلکہ اس کا استاد خدا ہو۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۳۵۹)
ایک دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں: ’’آنے والے کا نام جو مہدی رکھاگیا سو اس میں اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا ہی سے حاصل کرے گا اور قرآن وحدیث میں کسی کا شاگرد