مرزائیوں کے نزدیک یہ سب کچھ ملحدانہ تحریکوں کا نتیجہ ہے: ’’لیکن یہ مذہب کے تفرقہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ مذہب پر یہ سراسر بہتان باندھا گیا ہے۔ یہ سب کچھ انہیں ملحدانہ تحریکوں کا کارنامہ ہے۔ اگرچہ مذہب کے نام پر سرانجام دیا گیا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
یہ ملحدانہ تحریک کس تحریک کا خطاب ہے؟ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس تعلیم کے زیراثر وزیر خارجہ پاکستان ظفر اﷲ خان صاحب ہندوستان اور پاکستان دونوں کو فسادات کا پورا پورا شریک قرار دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل آفیسرز کے سالانہ ڈنر کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں مسابقت کی جنگ جاری رہی ہے اور دونوں نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ برائی اور ظلم میں ان میں سے کون دنیا کے سامنے مثال قائم کر سکتا ہے۔‘‘ (نوائے وقت مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۴۹ئ)
غرضیکہ مرزائیت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ جو حکومت قائم ہو خواہ کافر ہو یامسلمان۔ ظالم ہو یا عادل اس کی فرمانبرداری لازم اور ضروری ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا آزادی کے لئے جدوجہد کرنا حرام ہے۔ اسی لئے فریضہ جہاد کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ مرزابشیرالدین نے لکھا ہے: ’’ہم صرف انگریزوں کے فرمانبردار نہیں بلکہ افغانستان میں افغانی حکومت کے، مصر میں مصری حکومت کے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں ان کی حکومتوں کے فرمانبردار اور مددگار ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)
ان بیانات کے ذکر کرنے سے مقصد اظہار یہ ہے کہ مرزائیت ہر حکومت کی وفاداری شرط ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ کیسی ہی حکومت کیوں نہ ہو۔ ان مختصر سے حوالہ جات سے معلوم ہوگا کہ مرزائیت کی تحریک ابدی غلامی کی ایک زنجیر ہے۔ اس میں حریت کا جذبہ، آزادی کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ ایسی تحریک سے نہ تو ملت کو نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ ملک کو۔ بلکہ ایسی تحریکات نقصان دہ ثابت ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ آج بھی پاکستان کے کسی میدان سرفروشی میں انکا حصہ موجود نہیں ہے۔
اقبال مرحوم کا نصیت آمیز شعر اس سارے مضمون کا خلاصہ ہے ؎
محکوم کے الہام سے اﷲ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز