کو برعکس اس کی اصل اور عام فہم مراد کے یہاں اصطلاطی طور کثرت مکالمہ اور مخاطبہ پر حاوی کیا اور یہ اصطلاح بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم سے قائم کی۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اس لفظ کا استعمال کثرت سے اپنے متعلق کرنے لگے تو لوگ پھر چونکے۔ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کیا کہ میں کوئی اصلی نبی تو نہیں۔ بلکہ اس معنی میں کہ میں نے تمام کمال آنحضرتﷺ کے اتباع اور فیض سے حاصل کیا ہے۔ ظلی اور بروزی نبی ہوں اور اس کے بعد انہوں نے ان آیات قرآنی کو جو شاید کسی اچھے وقت میں ان پر نازل ہوئی تھیں، اپنے اوپر چسپاں کرنا شروع کر دیا اور شدہ شدہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کا اظہار کر دیا۔ لیکن صریح آیات قرآنی اور احادیث اور اقوال بزرگان سے جب انہیں اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے اس دعویٰ کو ترک کر کے اپنا مقر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث میں جاتلاش کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو بذریعہ وحی ثابت کر کے یہ دکھلایا کہ ان احادیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں کسی شخص کو نبوت کا درجہ عطاء کیا جائے گا۔
مدعا علیہ کے ایک گواہ کے بیان سے یہ اخذ ہوتا ہے اور نہ معلوم اس نے بطور خود یا مرزاقادیانی کی کسی تحریر کی رو سے یہ بیان دیا ہے کہ احادیث میں جو عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر آئی ہے اس میں رسول اﷲﷺ سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوتی ہیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن حقیقت ان کے ظہور کے وقت نمایاں ہوتی ہے اور اجتہادی غلطی پیش گوئیوں کے سمجھنے میں یعنی کیفیت تحقیق وقوع کے لحاظ سے ہر نبی سے ممکن ہے۔ حتیٰ کہ رسول اﷲﷺ سے بھی اس کی مثال اس نے بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر دی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک رؤیا کی بناء پر یہ سمجھا کہ وہ حجر یمامہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے۔ لیکن آپ جس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو اس وقت آپﷺ پر اس پیش گوئی کی حقیقت کھلی کہ اس سے مراد مدینہ تھا اور کہ جب نبی سے اجتہادی غلطی ممکن ہوئی تو پیش گوئی کے پورا ہونے کے وقت اصل حقیقت پیش گوئی کی منکشف ہو جائے گی اور کہ امتی کو پیش گوئی کے تحقق وقوع کے وقت وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ غرض مرزاقادیانی نے سابقہ مراحل سے گذرنے کے بعد بڑھ چڑھ کر اپنے مسیح موعود ہونے کے دعوے کا اظہار شروع کر دیا اور نبوۃ کو پھر ایک ایسا گورکھ دھندا بنا دیا کہ جو نہ تو لوگوں کی سمجھ میں آسکا ہے اور نہ ہی ان کے اپنے متبعین جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے۔ ان کے مرتبے کو بخوبی سمجھ سکے ہیں۔ بلکہ خود خدا کو بھی نعوذ