مقابلہ میں اگر کوئی کام کیا تھا تو مولوی محمد حسین نے، لیکن آلہ تناسل کاٹا جاتا ہے۔ ان کے والد کا اس بیچارے کا کیا قصور؟ اس نے کون سا ایسا اقدام کیا تھا؟
اس انتہائی گراوٹ اور زبان کے بدترین تلوث کے باوجود بھی… کہ جسے نقل کرتے ہوئے بھی دم گھٹا جاتا ہے اور ضمیر مراچاہتا ہے… مرزاقادیانی اگر نبی ہیں اور میاں صاحب خلیفہ! تو یہ اس مرزائی علم کلام کی برکت ہے جو زبان وقلم کی ان گل افشانیوں اور جولانیوں کے بعد بھی مرزاقادیانی کو سلطان القلم اور خلیفہ صاحب کو غالب علیٰ کل قرار دیتا ہے اور مذکورہ بالا حوالوں کو من وعن لفظاً لفظاً نہیں بلکہ حرفاً حرفاً تسلیم کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ ان حضرات کے منہ سے کبھی ناجائز وناروا بات نکلی اور نہ نکل سکتی ہے۔
آتے ہیں وہ خوابوں میں خیالوں میں دلوں میں
پھر ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم پردہ نشیں ہیں
مرزاغلام احمد کا ایک عظیم الشان کارنامہ
ابدی غلامی
از قلم: حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی صاحب، دارالاشاعت اٹک!
خداوند تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی نجات کے لئے ہر زمانہ میں رسول مبعوث فرمائے۔ حتیٰ کہ خاتم النّبیین محمدﷺ نے دو جبروتی نظاموں کے خاتمہ کا اعلان فرمایا۔
’’اذا ہلک کسریٰ فلا کسریٰ بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ‘‘ ساری دنیا پر یہی دو نظام تھے جنہوں نے انسانیت کے وقار کو خاک میں ملایا ہوا تھا۔ محمدﷺ کی مقدس تعلیم اور آپﷺ کے پاک جذبہ حریت نے اس کا ابدی خاتمہ کر کے انسان کو آزادی کامل سے نوازا۔ یہی مقصد ہر زمانہ میں انبیاء علیہم السلام کا رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ ’’ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبہم‘‘
الغرض نبی کا سب سے بڑا کام یہی ہوا کرتا ہے کہ وہ جبروتی نظام کے ظالمانہ وقار کو تارتار کر کے اشرف المخلوقات کو آرام اور سکون بخشے۔ بلکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہوں گے کہ نبی کا تو بہت ہی بلند مقام ہے۔ ذرا سا درد دل رکھنے والا اﷲکا بندہ بھی اپنا فرض عین سمجھتا ہے کہ وہ ظالم حکومت کا مقابلہ کرے۔ ’’الا ان اولیاء اﷲ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘