آئی ہوں گی۔ اس کے جواب میں آپ کلیتاً آزاد ہیں۔ مرزاقادیانی کی پوزیشن صاف کرنے کے لئے جو چاہیں کہیں۔ کوئی ہے جو ہمارا یہ غیرمشروط چیلنج قبول کرے ؎
ادھر آؤ جاناں ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
بڑے میاں، بڑے میاں، چھوٹے میاں، سبحان اﷲ!
اگر برا نہ مانا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مرزاقادیانی کا مقابلہ ’’خوش کلامی‘‘ اور ’’شیریں زبانی‘‘ میں اگر کیا تو میاں محمود صاحب نے ’’نبی‘‘ کا ریکارڈ اگر توڑا تو ’’خلیفہ‘‘ نے باپ کی جگہ اگر لی تو بیٹے نے۔ آپ کی خوش بیانی کے ڈنکے دنیا بھر میں بجائے جاتے ہیں۔ آپ ایک خطبہ نکاح میں یوں اپنے دہن مبارک سے گل افشانی فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے قریباً ہم عمر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی تھے۔ ان کے والد کا جس وقت نکاح ہوا ان کو اگر حضرت اقدس مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی حیثیت معلوم ہوتی اور وہ جانتے کہ میرا ہونے والا بیٹا محمد رسول اﷲﷺ کے ظل اور بروز کے مقابلہ میں وہی کام کرے گا جو آنحضرتﷺ کے مقابلہ میں ابوجہل نے کیا تھا تو وہ اپنے آلہ تناسل کو کاٹ دیتا اور اپنی بیوی کے پاس نہ جاتا۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲؍نومبر ۱۹۲۲ئ)
اناﷲ!
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
پھولوں کی اس جھڑی اور موتیوں کی اس لڑی پر اتنا تعجب وتحیّر نہیں۔ جتنی حیرت اس بات کی ہے کہ ان اقوال وارشادات بلکہ ان الہامات کے صدور ونزول اور آج تک ان کے باوجود باپ کو عظیم الشان نبی اور سب رسولوں سے افضل وبرتر رسول یا بدرجہ اقل مجدد اعظم اور مسیح موعود مانا جاتا ہے تو بیٹے کو خلیفۃ المسیح اور مصلح موعود۔ حالانکہ باپ کو زبان وحی ترجمان سے حضرت مولانا غزنویؒ کی باعصمت بیوی کا پیٹ اور حضرت مولانا سعد اﷲ صاحب لدھیانوی کی عفت مآب بیوی کا رحم محفوظ نہ رہا تو بیٹے کی لسان الہام نشان سے حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی کے باپ کا آلہ تناسل نہ بچ سکا۔
اگر حضرت اقدس مرزاقادیانی کا ہم عمر تھا تو مولوی محمد حسین حضرت مسیح موعود کے