فرعون کے وہ جادوگر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سرپیکار تھے۔ ایمان لانے کے بعد اتنے بے خوف ہوگئے کہ فرعون کو صاف کہہ دیا تو صرف یہی کر سکتا ہے کہ ہماری دنیاوی زندگی کا فیصلہ صادر کر دے۔
’’انما تقضی ہذہ الحیوٰۃ الدنیا‘‘ جناب رسول اﷲﷺ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: ’’افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ اسی جذبے سے متاثر ہوکر ابوالحسن خرقافیؒ نے سلطان محمود غزنوی کو ہندوستان پر حملہ کا حکم فرمایا۔ تاکہ ظالم گؤسالہ پرستوں سے اﷲ کے ماننے والوں کو نجات ملے۔ یہی وہ تڑپ تھی جس نے مجدد الف ثانیؒ کو جہانگیر جیسے مسلمان (مگر غیرعامل) بادشاہ کے مقابل کردیا۔ پھر فاتحان ہند اور موسس پاکستان سید احمد اور سید اسماعیلؒ نے اسی امنگ بلکہ اسی عقیدت سے سرشار ہوکر باطل کے مقابلہ میں جان تک نثار کر دی۔ علامہ جمال الدین افغانی ساری عمر باطل کی غلامی گوارہ نہ کی۔ اس حقیقت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی جو بالفاظ قادیانی امت مرزائیوں کے نبی تھے اور اس نے خود بھی کہا: ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ‘‘ اس کے حق میں نازل ہے اس کا دعویٰ یہ ہے کہ:
آنچہ داد است ہر نبی راجام
دادآں جام را مرا بہ تمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
اور تباویل ’’پیغامیہ‘‘ مجدد تھے۔ ضروری اور لازم تھا کہ وہ ہر باطل کے مقابلہ پر کمر بستہ ہو جاتے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی بالکل برعکس ہے۔
اقبال مرحوم نے اس سارے فلسفے اور اس کی ساری تعلیم کو صرف ایک شعر میں جمع کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں ؎
گفت دیں را رونق از محکومی است
زندگانی از خودی محرومی است
اب اسی شعر کی تشریح مرزائیوں کی زبانی ملاحظہ فرماویں۔ مرزابشیر احمد کا کہنا ہے کہ سکھوں کے زمانہ میں بھی ان کے بزرگوں نے وفاداری کا اعلان کیا اور اعزاز واکرام حاصل