فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہوگئے تھے۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان ج۵ ص۲۵، ملفوظات ج۲ ص۳۷۲)
اب غور فرمایئے! پندرہ برس کی عمر کے درمیان جب کہ آدمی پورا بالغ بھی نہیں ہوتا۔ مرزاسلطان احمد صاحب پیدا ہو گئے تو مرزافضل احمد صاحب زیادہ سے زیادہ تیرہ برس کی عمر میں جب کہ انسان ابھی گویا بچہ نہیں حقیقی بچہ ہوتا ہے۔ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوگئے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود کو اوائل سے ہی پھجے دی ماں سے بے تعلقی بھی تھی۔ کیونکہ اس کا میلان مرزاقادیانی کے ’’بے دین‘‘ رشتہ داروں کی طرف تھا اور وہ انہی کے رنگ میں رنگین تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود نے اوائل سے ہی ان سے مباشرت ترک کر دی تھی۔ مگر بایں ہمہ اعجازی طور پر پیاپے دو لڑکے پیدا ہو ہی گئے۔
کیا دنیا بے زبان ہے۔ مانا کہ دنیا اس فن شریف میں مجدد کی حیثیت نہیں رکھتی۔ لیکن کیا وہ مرزاقادیانی ہی کے اگلے ہوئے نوالے بھی ان کے منہ میں نہیں دے سکتی؟ اگر ہم مرزاقادیانی ہی کے عطا فرمودہ یہ تمام خطابات مرزاقادیانی کے حق میں استعمال کریں تو دنیا کا کوئی ضابطہ عدل وانصاف مانع ہونے کا حق رکھتا ہے؟ یا ہمارے منہ میں زبان اور ہاتھ میں قلم نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہے۔ مگر ہم بہ تقاضائے انسانی شرافت اور بمطالبہ اخلاق وآدمیت صرف عطائے تو بہ لقائے تو کہہ کر اس مکروہ باب کو ختم کرتے ہیں ؎
انداز جنوںکون سا ہم میں نہیں مجنوں
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے
چیلنج
اگر ان شواہد ودلائل کے باوجود بھی کسی قادیانی یا لاہوری دوست کو حضرت صاحب کی بدزبانی میں تأمل ہو تو جیسا کہ بارہا پریس سے چیلنج دیا جاچکا ہے ہم انہیں آج ایک دفعہ پھر پوری قوت کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کسی وقت کسی جگہ اس عنوان پر ہم سے مناظرہ وبحث کر لیں۔ شرائط وغیرہ کا اڑنگا لگا کر نکل جانے کی راہ ہم نہیں دیں گے۔ ہم امن کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں اور غیرمشروط مناظرہ کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم صرف مرزاقادیانی کے اقوال وارشادات ہی سے آفتاب نصف النہار کی طرح دکھلا دیں گے کہ عظیم الشان نبی یا اس صدی کا مجدد اعظم سباب اعظم اور مجدد سب وشتم ہے۔ نہ صرف مجدد بلکہ اس فن شریف میں موجد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے ایسی ایسی لطیف ونفیس گالیاں ایجاد کی ہیں۔ جو لکھنؤ کی بھٹیاریوں تک کے وہم وگمان میں بھی نہ