ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
مثال بڑے کام کی یاد آگئی ایک سرحدی اسٹیشن پر اترا اور ایک کشمش کا بورا جس میں قریب دومن کے وزن ہوگا بغل میں تھا بابو کو اپنا ٹکٹ دیا بابو نے دریافت کیا کہ خان صاحب اس بورے کا ٹکٹ یعنی بلٹی کہاں خان صاحب نے کہ کہ اس کا ٹکٹ بھی یہی ہے بابو نے کہا کہ پندرہ سیر سے اسباب بدون بلٹی لے جانا قانون کے خلاف ہے تو خان صاحب کہتے ہیں گویا کہ قانون کی تفسیر بیان کررہے ہیں کہ پندہ سیر کا قانون ہنوستانی کے لئے ہے وہ اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے یہی پندرہہ سیر پے دیکھو کیسی آسانی سے ہم اس کو بغل میں لئے کھڑا ہے یہ آپ نے قانون کی شرح اور تفسیر کی تو حاصل یہ ہوا کہ اس قانون میں پندرہ سیر کا وذن مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافر جتنا آسانی سے لیجاسکے تو کیا اس قانون کی تفسیر کہا جاسکتا ہے اور کیا یہ تفیسر قانون دان کے نزدیک مقبول ہے اسی طرح غیر اہل فن کی قرانی تفسیر ایسی ہی ہے جیسے اس ولائتی خان نے قانون کی تفسیر کی تھی اور اگر کوئی قانون دان اس کو حقیقت سمجھائے تو بہت مشکل ہے جب مخاطب کو فن سے مناسبت ہی نہیں تو کہہ دینا کافی ہے کہ تو احمق ہے تو کیا جانے قانون کی اچیز ہے اس کے بعد وہ ڈپٹی کلکٹر صاحب کہنے لگے کہ سودنہ لینے کی وجہ سے مسلمان تباہ وبرباد ہورہے ہیں اور ترقی نہیں کرسکتے میں نے کہا کہ اگر ترقی کی ایسی ہی ضرورت ہے تو حرام سمجھ کر بھی تو لے سکتے ہیں اس سے بھی ویسی ہی ترقی ہوگی تر قی تو لینے پر موقوف ہے نہ کہ اعتقاد حلت پر کیونکہ ترقی کو کیا خبر کہ اس کا عقیدہ کیا ہے اسلئے حرام سمجھ کرلیں تب بھی تر قی ہوسکتی ہے اس صورت میں یہ ہوگا کہ جرم میں کسی قدر تخفیف ہوجائے گی فرق یہ ہوگا کہ اگر حرام سمجھ کر لے گا تو چور ڈاکو سمجھا جائے گا سز میں جیل یعنی محدود مدت کے لئے دوزخ میں جائے گا اور اگر حلال سمجھ کر لیا یہ بغاوت ہوگی اس پر پھانسی کا حکم ہوگا یعنی غیر محدو مدت کے لئے دوزخ میں جائے گا یا دائم الحبس کیا جائے گا ایک صاحب ان کے ہمرا تھے ان سے ڈپٹی صاحب کہنے لگے کہ دیکھئے یہ اعلی درجہ کا فلسفہ کہ سود لینے کی ایک گنجائش نکا ل دی پھر فرمایا کہ سبحان اللہ خوب سمجھے - یہ گنجا ئش تو ایسی ہے جیسے ساحران موسی کہیں کہ موسی علیہ السلام نے ہم کو سحر کی اجازت فرمادی ہے کیو نکہ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ القوا ما انتم ملقون