ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
کیا کہ ایک درخواست دو کہ ہم ان کی شہادت نہیں چاہتے انھوں نے مجبور ہر کر طوعا وکرہا درخواست دیدی کہ ہم ان کی شہادت نہیں چاہتے اور ساتھ ہی حاکم سے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اسوقت احاطہ کچہری میں موجود ہیں - حاکم نے کہا کہ ہم ظابطہ سے تو کچھ کہہ نہیں سکتے اس لئے کہ درخواست بھی گزرچکی اب مستثنیٰ کرنا واجب ہے ہم کو کوئی حق نہیں رہا بلکہ اگر وہ سمن پر بھی نہ آتے تب بھی ضابطہ کی کاروائی نہ کرتا مگر مگر مشورۃ کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنا بیان دیدں تو اچھا ہے دومسلمانوں کا جھگڑا ہے شریعت کا مسئلہ ہے یہ معاملہ طے ہو جائیگا بشرطیکہ بخوشی منظور کرلیں لوگوں نے مجھے کہا مجھ کو بھی خیال ہوا کہ مسلمانوں کا معاملہ ہے پریشان ہیں اچھا ہے طے ہوجایئگا - میں نے منظور کرلیا اب حاکم کی تہزیب دیکھئے حکم دیا اور گواہوں کی طرح پکارا نہ جائیگا - میں نے منظور کرلیا اب حاکم کی تہزیب دیکھئے حکم دیا کہ اور گواہوں کی طرف پکارا نہ جائے اور اجلاس تک پیادہ نہ آئیں سواری میں آئیں جہانتک ہماری سواری آتی ہے وہانتک سواری آئے اور خلف نہ دیاجائے غرض میں پہمچا اور سواری سے اتر کر اجلاس پر پہنچ گیا حاکم نے دیکھ کر اجلاس کے کٹھرے کے اندر بلایا اور اردلی کو حکم دیا کہ کرسی لاؤ مجھ کو اس علم نہ تھا میں دونوں کہنیاں میز پر رکھ کر کھڑا ہوگیا بیان شروع ہوا اس وقت فضل خداوندی کا مشاہدہ کر رہا تھا مجھ کو یہ معلوم ہاتا تھا کہ یہ مدرسہ ہے اجلاس نہیں ایک ایک طالب علم سوال کررہاہے میں جواب دے رہا ہوں تمام اجلاس کا کمرہ وکلاء اور بیسر ٹروں سے پر تھا اس لئے کہ تمام کچہری میں شہرت ہوگئی تھی کہ اس کا آج بیان ہے پہلا سوال عدالت کی طرف سے یہ ہوا کہ تمہارانام کیا ہے باپ کانام کیا ہے میں نے بتلادیا اسکے بعد سوال ہوا کہ آپ عالم ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ اچھا سوال ہوا اگر کپتا ہوں کہ نہیں تو یہ ایشیائی مزاق کو کیا جانے کہیگا کہ سمن کی تعمیل غلط ہوئی اس پر عالم لکھا ہے دوسرے یہ کہ اسکی نظر میں اپنی ایک قسم کی اہانت بھی ہوگئی کہیگا کہ آنے کی تکلیف ہی کیوں گوارا کی جائے - اور اگر کہتا ہوں کہ عالم ہوں تو اپنے مزاق اور مسلک کے خلاف میں کہا کہ وہاں مسلمان ایساہی سمجھتے ہیں یہ لکھ لیا گیا - دوسرا سوال اس سے بڑھ کر ہوا وہ یہ کہ کی اسب مسلمان اپکو مانتے ہیں پھر سوچ میں پڑ گیا کہتا ہوں کہ نہیں توا پنی سبکتی اور اہانت غیر مسلم کے سامنے ہوتی ہے جس کو جی گوارا نہ کرتا تھا دوسرے یہ کہ اس کہ کہنے کا مقدمہ پر اثر پڑیگا کسی نہ کسی فریق کے خلاف ہوگا اس کہنے کی گنجائش ہوگئی کہ وہ تو خود ہی کہ رہے ہیں کہ سب نہیں مانتے