ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
نہیں سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل نہیں اس لئے کہ جس زینہ سے مسلمانوں کی وہ معراج ترقی پر لیجانا چاہتے ہیں اور ان کی فلاح اور بہبود کا سبب سمجھتے ہیں یہ ہی مسلمانوں کی پستی کا سبب اور تنزل کا باعث ہوگا اس پر صاحب عرض کیا کہجس چیز کی کمی شکایت حضرت نے سرسید کے اندر فرمائی اسی کو پورا کرنے کے لئے توآپ حضرات کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے - تاکہ تکمیل ہو کر مقصود انجام کو پہنچ جائے یہ ایسی بات تھی کہ سوائے عارف کے دوسرا جواب نہیں دے سکتا تھا حضرت مولانا نے فی البدیہ جوابفرمایا کہ سنت اللہ یہ ہے کہ جس چیز کی بنیا د ڈالی جاتی ہے باقی کے خیات کا اثر ساتھ ساتھ اس میں ضرور ہوں گے اور اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک تلخ درخت کا پودہ قائم کر کے مٹکے میں شربت بھر کر اور ایک مالی کو وہاں بٹھلا کر ان سے عرض کیا کیا جائے کہ اس شربت کو اس درخت کی جڑمیں سینچا کرو سو جس وقت وہ درخت پھول پھل لائیگا سب تلخ ہوں گے واقعی عجیب ہی بات فرمائی - میں نے اس تحریک کے زمانہ میں ایک موقع پر کہا تھا کہ تم اب پچاس برس کے سمجھتے ہو کہ علی گڑھ کالج کی وجہ سے انگریز بہت اور دہریت اور نیچریت پھیلی ہے لوگو ں کے دینویمان برباد ہوئے اس کو ایک مبصر پچاس برس پہلے کہہ چکے تھے اور اسی سے اس تحریک کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ مولانا نے جوکام کرنے والوں کی تین قسمیں بیان فرمائی تھیں ایک وہ نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں - دوسرے کہ عقل تو ہے مگر نیت اچھی نہیں تیسرے یہ کہ نیت اچھی نہ تھی نہ عقل تو اس تحریک حاضرہ جو بانی اعظم ہے وہ دونوں صفات کا جامع ہے نہ نیت اچھی نہ عقل اور ایک تیسری صفت مزید بلکہ دین بھی نہیں - سرسید میں تو صرف ایک ہی کمی فرمائی تھی کہ عقل نہیں تو اس کی نحوست کا تو یہ اثر ہوا جو تم کو بھی تسلیم ہے اور جس میں یہ تینوں کمی ہوں اس کی ڈالی ہوئی بنیاد میں تو کہاں خیر اور کہاں دین وایمان اور کہاں فلاح اور بہبود حضرت مولانا کہ بانی کا اثر بناء میں ضرور ہوتا ہے یہ اس تحریک میں کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوچکا کہ جو بھی شریک ہوا اسی رنگ میں رنگا گیا بڑوں بڑوں کے زھد اور تقویٰ دین وایمان نماز روزہ سب بانی ہر نثار ہوگئے ایک مولوی صاحب نے تو یہانتک اثر لیا کہ بانی کی شان میں یہ شعر لکھ دیا کہ