ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
جو اس وقت مانع استعمال تھئ کہاں گئی - یہ ثقہ لوگوں کا حال تھا جس کس درمیان میں ذکر آگیا شروع سرسید کے حال سے ہواتھا اب اسی کا بقیہ عرض کرتا ہوں کہ وہاں نصوص اور احادیث کا انکار حضور کی معراج جسمانی انکار اورکثرت سے خرافات ہانکتے ہیں اس پر بھی معتقدین کہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کا خیر خواہ اور ہمدر تھا نہ معلوم وہ خیر خواہی اور ہمدردی کو نسی قسم کے مسلمانوں اور کون سے اسلام کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عالم میں تشریف لا کر جس اسلام کی تبلیغ کی اور جیسا مسلمان بنایا تھا اس اسلام اور مسلمان کی تو اچھی خاصی دشمنی تھی جس وقت سرسید نے علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو نہوں نے اپنے یک خاص معتمد کو گنگوہ بھیجا اس کام کے لئے حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کر کے مولانا کو یہ پیام پہنچاؤ - کہ میں نے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود وترقی کے لئے ایک کالج کی بنیاد ڈالی ہے دوسری قومیں ترقی کر کے بہت آگے پہنچ چکی ہیں مسلمان جلد اپنے مقصد کامیاب ہوجاؤں گا حقیقت میں مسلمانوں کی کامیابی ہے غرضکہ سفیر وہ گنگوہ آئے اور حضرت مولانا پاس حاضر ہو کر بعد مسنون کے سر سید کا پیام عرض کیا حضرت مولانا سرسید کا پیام سن کر فرمایا کہ بھائی ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح اور بہبود اور ترقی کا زینہ اور بھی کوئی ہے تو اس کے متلعق یہ ہے کہ میری ساری عمر قال اللہ وقال لرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزری ہے - مجھے ان چیزوں سے ریادہ مناسبت نہیں - حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا نام لیا کہ وہ ان باتوں میں مبصر ہیں ان سے ملو وہ جو فرمائیں گے اس میں ہم ان کی تقلید کرلیں گے ہم تو مقلد ہیں یہ صاحب حضرت مولانا قاسم صاحب رحمتہ اللہ علہی ملے اور سرسید کا سلام پیام اور حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ جو گفتگو ہوئی تھی اور اس پر حضرت مولان نے جو جواب دیا تھا سب حضرت قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو سنا دیا گیا حضرت مولانا نے سنتے ہی فی البدیہ فرمایا کہ بات یہ ہے کام کرنیوالے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ ان کی نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں - دوسرے وہ لہ عقل تو ہے مگر نیت اچھی نہی تیسری یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل سر سید کے متلعق ہم یہ کہہ