ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
بڑا مشکل ہے حالانکہ یہ خالا صہ ہی بین دلیل ہے اس کے سہل ہونے کی مگر پھر سہل کو مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ چاہتے یہ ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے ان مکاتیب سے یہ معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کرنا پڑے گا بس گھبرا گئے اس کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ دودھ بھی نہ پئے جو نہایت سہل ہے اور یوں کہے کہ مجھ کو کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا ہی کسی طرح دودھ پلادے حالانکہ جس کو ملا ہے کرنے ہی سے ملا ہے اور جہاں بدون کچھ کئے صورۃ کچھ ہوگیا ہے وہاں بھی پہلے کچھ کرلیا ہے تب ہی کچھ ملا ہے گو بعض جگہ کرنے والے کو بھی حقیقت معلوم نہ ہوئی ہو جیسے ایک شخص نے عنت ( نامردی ) کی شرمندگی میں سنکھیا کھا لیا مقادر مہلک تھی مگر مزاج اس قدر بارد تھا کہ اسکا متحمل ہوگیا اور عورت پر قادر ہوگیا مگر ایسا شازو نادر ہے بعض کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اہل علم کو جلد نفع ہوتا ہے گویا بے کئے ہی مقصود حاصل ہوتا ہے اس سے آُ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بدون مجاہدہ کے کام ہوگیا مگر ایسا ہر گز نہیں وہ جو دس یا بیس برس تک کتاب کو سامنے رکھ کر آنکھیں سینکتے رہے ہیں اور تمام تمام شب اور تمام تمام دن رٹتے رہے ہیں یہ کیا تھوڑا مجاہدہ اسی مجاہدہ سے اس میں استعداد پیدا ہوگئی سو کام مجاہدہ ہی سے ہوا اول مجاہدہ ہوا پھر مقصود کی اہلیت و استعداد پیدا ہوگئی اور کسی کا مل کی تو جہ سے وہ مستقل اور راسخ ہوگئی باقی اگر نری تو جہ سے کوئی کیفیت پیدا کوگئی تو وہ بھی مستقل نہ ہوگی ایک عارضی ہوگی جیسے جب تک لحاف میں رہے گرمی ہے باہر نکلے وہی ٹھنٹدے کے ٹھنٹدے کیو نکہ وہ گرمی عارضی بات تھی اور ایک گرمی انڈے کا حلوہ کھانے سے ہوتی تھی سو یہ گرمی مستقل ہوگی سو نرمی توجہ کوئی چیز نہیں بکلہ اصل چیز تر بیت ہے سو اس میں عمل کی تعلیم لازم ہے اور بدون تر بیت ومجاہدہ کے انسان قطب اور غوث تو ہوسکتا ہے مگر مقصود حاصل نہیں کر سکتا اور مجاہدہ بھی کوئی میعن مدت کا نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ساری عمر اسی دھیڑ بن میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ہی پڑے دولت بڑی نعمت ہے اسی کو فرماتے ہیں - اندریں رہ می تراش دمی خراش تادم آخردمے فارغ مباش اور عشاق کی تو مجاہدہ دائمی میں یہی شان ہتی ہے کہ ان کی ساری عمر رونے پیٹنے میں کٹتی ہے آنکھ دل سے جس کا سر چشمہ وہی و محبت ہے اسی کو کسی نے خوب کہا ہے - یارب چہ چشمہ الیت محبت کہ من ازاں یک قطر ہ آب خوردم ودر یا گریستم