اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
اس آیات میں سترہ الفاظ ہیں اور بدیع كی بیس ضربوں پر مشتمل ہے۔ ۃ ۃ ۃ ۹ تقسیم ہے؛ یعنی: پانی كم ہونے كی تینوں قسموں كو گھیر لیا ہے: آسمان كا تھمنا، زمین كا پانی نگلنا اور باقی پانی كادھوپ سے سُكھ جانا۔ ۱۰ ﴿بُعْداً للقَوْمِ الظٰلِمِیْن﴾ میں ﴿الظٰلِمِیْن﴾ میں احتراس ہے؛ تاكہ یہ وہم نہ ہو كہ غرق كرنا ظالمین وغیر ظالمین سب كے لیے تھا؛ حالاں كہ ایسی بات نہ تھی۔ ۱۱ انسجام ہے یعنی: آیتِ كریمہ سلاست سے ادا ہورہی ہے، جیسے جاری پانی بہتا ہو۔ ۱۲ حسنِ نسق ہے، یعنی: متكلم كسی قصہ یا مضمون كو بیان كرنے كے لیے چند ایسے جملے بذریعۂ حرفِ عطف (واؤ) ذكر كرے جو جملے آپس میں متناسب اور جوڑ ركھے ہوئے ہوں اور ترتیبِ واقعی كے مطابق ہوں ۔ ۱۳ ایجاز ہے؛ كیوں كہ اس میں امر ہے تو نہی (اے آسمان پانی مت برسا) بھی ہے؛ خبر ہے تو ندا (انشاء) بھی ہے؛ اِہلاك ہے تو اِبقاء بھی ہے؛ سعادت مند بنانا ہے تو شقی وبد بخت بنانا بھی ہے۔ ۱۴ ائتلاف اللفظ مع المعنی (جیسا معنی ویسا لفظ) ہے۔ ۱۵ تسہیم ہے، یعنی اولِ آیت آخرِ آیت پر دلالت كرتی ہے۔ ۱۶ تہذیب ہے، یعنی: اس كے مفردات خوبصورت ہیں ؛ كیوں كہ مفردات كا ہر ہر لفظ سہل المخارج كے قبیل سے ہے؛ نیز یہ كہ فصاحت بھی ہے كہ: آیت میں نہ تنافر ہے نہ ہی تعقید۔ ۱۷ حسنِ بیان ہے؛ كیوں كہ سامع كو آیت كے معانی سمجھنے میں كوئی دشواری نہیں ۔ ۱۸ ﴿وغِیْضَ المآءُ﴾ میں اعتراض (جملہ معترضہ) ہے؛ گویا آسمان كے تھمنے اور زمین كے پانی نگلنے كے بعد كیچ بھی نه رها؛ بلكه وه بھی سُكھ گیا۔ ۱۹ كنایہ ہے؛ كیوں كہ آیت میں ذكر كردہ فاعلین كی تصریح نہیں ہے كہ: مَنْ أغَاضَ الماءَ؟ مَنْ قَضیٰ الأمْرَ، مَنْ قال: (قِیْل یٰٓأرضُ). ۲۰ تعریض ہے كہ: رسولوں كی تكذیب كرنا ظلم ہے؛ كیوں كہ طوفان اور یہ ہولناك منظر اسی كا نتیجہ تھا۔ ۲۱ ابداع ہے، یعنی: مختلف فنونِ بدیعیہ كو سمیٹ لینا۔ (جواھر، الزیادة) هٰذا كلام ربي، هٰذا كلام ربي، هٰذا كلام ربي؛ رضینا باللہ ربا وبالإسلام دینا وبمحمد نبیا وبالقرآن كتابا.