اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۴ تشابہِ اطراف لفظًا: كی دو صورتیں ہیں : صورت اولیٰ: یہ ہے كہ :ناثر یا ناظم جملۂ اُولیٰ یا مصراعِ اوّل كے اخیری لفظ كو جملۂ ثانیہ یا مصراع ثانی كی ابتدا میں دو بارہ ذكر كرے، جیسے: ﴿فِیْهَا مِصْبَاحٌ، اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ، اَلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ﴾۱ [النور:۳۵]. تشابہ اَطراف لفظی كی دوسری صورت یہ ہے كہ: ناظم ہر بیت كے قافیہ كے لفظ كو بعد والے بیت كے شروع میں دو بارہ ذكر كرے، جیسے: إِذَا نَزَلَ الْحَجَّاجُ أَرْضاً مَرِیْضَةً ۃ تَتَبَّعَ أَقْصٰی دَائِهَا فَشَفَاهَا شَفَاهَا مِنَ الدَّاءِ الْعُضَالِ الَّذِيْ بِهَا ۃ هُمَامٌ إِذَا هَزَّ الْقَنَاةَ سَقَاهَا۲ ۵ اِرصاد: (تسہیم) بیت یا فقرے كے عَجُز سے پہلے ایسی عبارت لانا جو آنے والے عجُز پر دلالت كرے جب كہ رَوِی معلوم ہو، جیسے: ﴿وَمَا كَانَ اللہُ لِـ’’یَظْلِمَهُمْ‘‘ یعنی نگاہیں كبھی اس كا احاطہ نہیں كر سكتیں ؛ آخرت میں جب وہ از راہِ لطف كرم اپنے آپ كو دِكھانا چاہے گا تو آنكھوں میں ویسی قوت بھی پیدا فرما دے گا، اور وہ ذات ابصار ومبصرات كا احاطہ كئے ہوئے ہے اس لیے كہ وہ باخبر ہے۔ اہم واقعہ: ایك اعرابی نے قاریٔ قرآن كو ﴿فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْآ أَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۲۰۹﴾ [البقرة:۲۰۹] اس آیت كو بجائے ﴿أَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ كے ’’أن اللہ غفور رحیم‘‘ پڑھتے سنا، تو دیہاتی بول اٹھا كہ: یہ حكیم -یعنی اللہ -كا كلام نہیں ؛ كیوں كہ عصیان اور نافرمانی كے موقع پر مغفرت كا ذكر كرنا عصیان پر اُبھارنا ہے؛ چناں چہ تحقیق سے معلوم ہوا كہ: آیت كا خِتام ﴿أنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ہے؛ یعنی شریعت محمدی كے صاف صاف احكام معلوم ہونے كے بعد بھی اگر كوئی اس پر قائم نہ ہو؛ بلكہ دوسری طرف بھی نظر ركھے تو خوب سمجھ لو كہ: اللہ سب پر غالب ہے جس كو چاہے سزا دے، كوئی اس كو عذاب سے روك نہیں سكتا؛ بڑا حكمت والا ہے جو كرتا ہے حق اور مصلحت كے موافق كرتا ہے؛ خواہ عذاب دے یا ڈھیل دے۔ (علم البدیع) ۱اللہ كے نور كی مثال كچھ یوں هے جیسے ایك طاق میں ایك چراغ ركھا ہو، اور وہ چراغ ایك شیشہ میں ہو، وہ شیشہ ایسا هو جیسے ایك چمك دار ستارہ موتی كی طرح چمكتا هوا۔ اور دوسری مثال شعر: هَوًی كان خِلْسًا إِن من أبرَدِ الهوی٭ - هوَی جُلْتُ فِي أفیائه وهو خاملُ. (جواهر البلاغة) ۲ترجمہ: جب حجاج كسی بیمار زمین میں اترتا ہے تو اُس كی بیماری كی جڑ كو تلاش كركے اُس كا علاج كر دیتا ہے؛ اُ س كا علاج كر دیتا ہے اُس لاعلاج بیماری سے جو وہاں ہوتی ہے۔ وہ ایسا سردار ہے كہ جب وہ نیزے كو حركت دیتا ہے تو اُسے سیراب كردیتا ہے۔ (جواهرالبلاغۃ)