اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
مخالفتِ قِیاسِ لغوی: كلمے كا قانونِ صرفی كے خلاف هونا، جیسے وزنِ شعری كی رعایت میں شاعر نے بجائے ’’الْأَجَلُّ‘‘ كے ’’الْأَجْلَلُ‘‘ كها هے: شعر: اَلْحَمْدُ لِلهِ الْعَلِيِّ الْأَجْلَل ۃ الوَاحِدِ الفَرْدِ القَدِیْمِ الْأَوَّلٖ۱ غرابَت: كلمے كا معنی ظاهر نه هو، یا تو اجنبی هونے كی وجه سے یا استعمال مشهور نه هونے كی وجه سے، جیسے: تكَأْكأ بمعنی جمع هوا، اِفْرَنْقَعَ القَوْمُ عَنِ الشَّيءِ بمعنی: الگ هونا، اِطْلَخَمَّ بمعنی دشوار هوا۲۔ لیكن یه امرِ كلی نهی هے؛ كیوں كه باری تعالیٰ كے فرمان: ﴿أَلمْ ’’أَعْهَدْ‘‘ إِلَیْكُمْ یٰبَنِيْ آدَمَ﴾ [یٰس:۶۰] میں لفظ ﴿أَعْهَدْ﴾ كا همزه، عین اور ھاء قریب المخارج هیں ؛ لیكن ذوقِ صحیح والے كو ثقل محسوس نهی هوتا؛ لهٰذا یه لفظ تنافر میں داخل نه هوگا۔هاں ! كبھی مقتضائے حال كے مطابق ثقیل كلمات كو ذكر كرنا بھی فصاحت كا مظهر هوتاهے، اور اس وقت یه علم البدیع كے ’’ائتلاف اللفظ مع المعنیٰ‘‘ كے قبیل سے هوگا، جیسے بارئ تعالیٰ نے غزوهٔ تبوك كی تمهید میں فرمایا هے: ﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ إِذَا قِیْلَ لَكُمُ إنْفِرُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللهِ ’’إثَّاقَلْتُمْ‘‘ إِلَی الْأَرْضِ﴾ [التوبة:۳۸]، یعنی: جب تمھیں الله كی راه میں كوچ كرنے كو كها جاتا هے تو تم زمین پر گرے جاتے هو۔ یهاں (إثاقلتم) یه موقع كی دشواری كی طرف مشیر هے؛ كیوں كه یه تبوك كا موقع هے، جب كه سخت گرمی تھی، قحط سالی كا زمانه تھا، كھجور كی فصل پك رهی تھی، سایه خوش گوار تھا، پھر اس قدر بعید مسافت طے كرنا كوئی كھیل تماشه نه تھا۔ اسی طرح ﴿أَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ۳۸﴾ [ھود:۳۸] میں ﴿أَنُلْزِمُكُمُوْهَا﴾ هے۔ (علم البیان) ۱ ’’تمام تعریفیں بزرگ وبرتر خدائے واحد كے لیے هیں ‘‘۔ معلوم هونا چاهیے كه: مخالفتِ قیاس لغوی سے مراد وه كلمات هیں جو واضع كی وضع اور استعمال عرب كے خلاف هوں ؛ لهٰذا جو كلمه واضع كے وضع كے موافق هو اگرچه مخالفِ قیاس كیوں نه هو، وه مخالفتِ قیاس میں داخل نه هوگا، پس آل وماء -جن كی اصل أھل ومَوهٌ هے- كا ابدال خلاف قیاس هے؛ لیكن واضع سے ثابت هونے كی وجه سے فصیح هوں گے؛ اسی طرح مشرِق ومغرِب كا بالكسر هونا مخالف قیاس ضرور هے؛ لیكن استعمال عرب كے موافق هونے كی وجه سے فصیح هوں گے۔ (جواهر البلاغت) ۲غرابت كی دو قسمیں هیں : ۱-لفظ كے معنیٰ بڑی مشقت كے بعد، معاجم میں بهت زیاده چھان بین كے بعد ملتا هو۔ ۲-دو یاچند معانی میں مشترك لفظ كو بلاقرینه اس طرح استعمال كیا هو جس سے مقصود سمجھنے میں سامع كو حیرت هوتی هو، جیسے ’’مسرَّج‘‘ كا لفظ ایك شاعر نے ذكر كیا هے؛ لیكن ائمهٔ لغت دو معنوں كی طرف گئے هیں ، كسی نے باریكی اور استواء كو مراد لیا هے تو كسی نے چمك دمك مراد لی هے۔ ملحوظه: لفظِ مشترك كے كسی ایك معنیٔ مرادی پر دلالت كرنے والے قرینه كو ذكر كرنے سے غرابت نهیں رهتی، جیسے ارشادِ باری هے ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهِ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ﴾ [اعراف: ۱۵۷] اس میں تعالیٰ نے ﴿عزّر﴾ لفظ مشترك كو ذكر كیا هے جو تعظیم واهانت میں مشترك هے؛ ساتھ میں ’’نصرت‘‘ كو ذكر كیا هے جو تعظیم كے معنیٰ مراد لینے پر قرینه هے۔