اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه: كبھی اسم ضمیر كی جگه اسم اشاره لاكر مخاطب كی غباوت اور بے وقوفی پر تنبیه كرنا مقصود هوتا هے، جیسے: فرزدق نے جریر سے كها: شعر: أوْلٰئِك آبَائِي فَجِئْنيْ بِمِثْلِهِم ۃ إذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ المَجَامِعُ۱ ۳ وضع المضمر موضع المظهر: كسی غرض سے اسمِ ظاهر كی جگه ضمیر كا استعمال كرنا، جیسے: ﴿أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِي الْأَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ أَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا؛ فَإِنَّهَا لَاتَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِيْ الصُّدُوْرِ٭﴾۲ [الحج:۴۶] ملحوظه: ضمیر شان اور ضمیر قصه اسی قبیل سے هیں ؛ كیوں كه ابهام كے بعد وضاحت، اجمال كے بعد تفصیل كرنا نفس پر ایك خاص اثر چھوڑتا هے۔ ۴ تعبیر عن المستقبل بلفظ الماضی: كسی غرض سے مضارع كی جگه ماضی استعمال كرنا، مثلاً: ۱ تنبیه علی تحقیق الوقوع: فعل كے وقوع كے یقینی هونے پر خبر دار كرنا مقصود هو، جیسے: ﴿أَتیٰ أَمْرُ اللهِ فَلَاتَسْتَعْجِلُوْهُ﴾۳ [النحل:۱]، أيْ: یَأتيْ أمْرُ اللهِ. ۱یهاں مناسب تو یه تھا كه شاعر كهتا: هُمْ آبَائِيْ؛ كیوں كه پهلی والی ابیات میں اُن كا تذكره هوچكا تھا؛ لیكن شاعر نے مخاطب كی بےوقوفی كی طرف اشاره كرنے كے لیے یه اسلوب اختیار فرمایا هے، اور برائے تعجیز فَجِئْنِيْ! امر استعمال فرمایا۔ (علم المعاني) ۲ترجمه: تو كیا یه لوگ زمین میں چلے پھرے نهیں هیں ! جس سے اُنهیں وه دل حاصل هوتے جو انهیں سمجھ دے سكتے هوں ، یا ایسے كان حاصل هوتے جن سے وه سن سكتے۔ حقیقت یه هے كه آنكھیں اندھی نهیں هوتیں ؛ بلكه وه دل اندھے هو جاتے هیں جو سینوں كے اندر هوتے هیں ؛ یهاں ﴿فَإِنَّهَا﴾ كی ’’ھاء‘‘ ضمیر قصه جس كا مرجع پهلے مذكور نهیں ؛ لیكن چونكه بعد آنے والا جمله اس كی تفسیر كررها هے، اور اس مضمون كو دل ودماغ میں بٹھانا تھا؛ لهٰذا ابتداء ً هی جمله ذكر كرنے كے بجائے پهلے ضمیر قصه كو ذكر كیا گیا هے۔(علم المعانی) بزیادة۔ اسی طرح حكم كی بجاآوری كے سبب كو قوی بنانے كے لیے متكلم اپنے غلام كو یوں كهے: ’’سَیِّدُكَ یَأْمُرُكَ بِكَذَا‘‘ تیرا آقا تجھے یه حكم دے رها هے۔ ۳الله كا حكم آپهنچا! سو اس كی جلدی مت كرو؛ یعنی: خدا كا یه حكم كه پیغمبر علیه السلام كی جماعت غالب ومنصور اور