اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
﴿إِنْ یَّتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ﴾۱ [الأنعام:۱۱۶]. ۵ فاعل كا قصر ظرف، مفعول له، مفعول مطلق(برائے نَوعیّت)، تمیز یا جار ومجرور پر هو تو وه قصر صفت اور قصر موصوف دونوں هو سكتا هے، جیسے: ﴿إِنْ نَّظُنُّ إِلاَّ ظَنًّا﴾ [الجاثیة:۳۲]، أي ظنًّا ضَعیْفا؛ وكقوْلكَ: ’’ما طابَ محمَّدٌ إلاَّ نَفْسًا‘‘۲. ۶ ذو الحال كا حال پر قصر، قصر موصوف كے قبیل سے هے، اور حال كا ذوالحال پر قصر، قصر صفت كے قبیل سے هے، جیسے: اول كی مثال: ﴿وَوَصّٰی بِهَآ إِبْرٰهِیْمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبُ، یٰبَنِيَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفیٰ لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَاتَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾۳ [البقرة: ۱۳۲]، مَا جَاءَ خَالدٌ إلاَّ رَاكِبًا، اور دوسرے كی مثال: مَا جَاءَ رَاكِبًا إلاَّ خَالِدٌ. تنبیه: مذكوره اَحوال (یعنی: ذكر وحذف، تقدیم وتاخیر اور تعریف وتنكیر) صرف مسند اور مسند الیه هی میں جاری نهیں هوتے؛ بلكه ان دونوں كے علاوه فعل كے دوسرے معمولات میں بھی جاری هوتے هیں ، جیسا كه بڑی كتابوں میں مفصل مذكور هیں ۔ ۱اگر ان مثالوں میں قصر صفت مانیں (یعنی فاعل سے واقع هونے والے فعل كو مفعول پر مقصور كرنا)، تو تقدیر -صیغهٔ فعل كو اسمِ مفعول كی تاویل میں كركے- یوں هوگی: مَا مَضْرُوْبُ مُحَمَّدٍ إلا زَیْدٌ، مَا مُهْلَكُهُمْ إلا أنْفُسُهُمْ، مَا مُتَّبَعُهُم إلا الظَّنُّ؛ اور اگر قصر موصوف مانیں (یعنی فاعل كو مفعول پر واقع هونے والے فعل پر مقصور كرنا)، تو مقصد یه هوگا: قَصَرَ مُحَمَّدٌ عَلیٰ ضَرْبِ زَیدٍْ، قَصَرَ الإهْلَاكُ عَلیٰ أنْفُسِهِم، قَصَرَ الاتِّبَاع عَلیٰ ظَنِّهِم، یعنی: زید كے ضرب كو محمد پر منحصر كرنا وغیره۔ ۲هم جو كچھ خیال كرتے هیں بس ایك گمان سا هوتا هے؛ دیكھیے! یهاں بھی اگر قصر صفت مانیں تو تقدیر یوں هوگی: مَا مَظْنُوْنُنَا إلَّا ظَنًّا ضَعِیْفًا، اور اگر قصر موصوف مانیں تو تقدیری عبارت یوں هوگی: قَصَرَ ظَنُّنَا عَلی ظَنٍّ ضَعِیْفٍ. ۳اور اسی بات كی ابراهیم ؑنے اپنے بیٹوں كو وصیت كی، اور یعقوبؑ نے بھی (اپنے بیٹوں ) كو، كه: الله نے یه دین تمهارے لیے منتخب فرما لیا هے؛ لهٰذا تمهیں موت بھی آنے پائے مگر اس حال میں كه تُم مسلم هو؛ دیكھیے! یهاں مرنے والے (ذوالحال) كو حالتِ اسلام (حال) پر منحصر كیا هے۔ (فوائد)