حاملانِ عرش وکرسی
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے کرسی کے بارے میں تفسیر مظہری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت بیان فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کرسی ایک ایسی مخلوق بنائی ہے جس کے چار پائے ہیں۔ ایک پایا ساتوں آسمانوں سے اوپر اور ساتوں زمینوں سے نیچے ہے۔ ایک پائے اور دوسرے پائے کے درمیان کی مسافت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور ان چاروں پایوں کو چار فرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں۔۱؎
جب اللہ تعالیٰ قیامت قائم فرمائیں گے تو حاملانِ عرش اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کی وجہ سے عرش کا تحمل نہیں کرسکیں گے، حالانکہ عرش پر اللہ تعالیٰ نہیں ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے جلال کا وزن عرش پراتنا پڑے گا کہ اُس دن یہ حاملانِ عرش چار سے آٹھ ہوجائیں گے۔۲؎ ابھی صرف چار ہیں۔حاملانِ عرش اور حاملانِ کرسی کے درمیان ستر حجاب تاریکی کے اور ستر حجاب نور کے ہیں۔ ایک حجاب کا فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت کا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کرسی بنائی ہے وہ کتنی بڑی ہے اور حاملانِ کرسی وہ کتنے بڑے ہیں۔ پھر پوری کرسی اپنے حاملین سمیت عرش کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی''لَایَقْدِرُ قَدْرَہٗ اِلَّا اللہ''، عرش کی مقدار اور اس کا اندازہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اگر حاملانِ عرش اور حاملانِ کرسی کے درمیان میں سے ستر تاریکی کے حجاب اور ستر نور کے حجاب ہٹادیے جائیں تو حاملانِ عرش کی تجلی اور نور سے حاملانِ کرسی جل جائیں گے۔۳؎ توعرش اتنا بڑا ہےکہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کرسی کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور کرسی عرش کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا عرش بنایا
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیرِِ مظہری:۱ /۶۶۸۔ ۲؎: الحاقّہ:۱۷۔ ۳ ؎: تفسیر مظہری: ۱ / ۳۵۸۔