اعمالِ ظاہری وباطنی کی دوسری تعبیر
یہ دو قسم کے اعمال ہوتے ہیں اعمالِ ظاہری اور اعمالِ باطنی۔ اعمالِ ظاہری کا نام فقہ ہے اور اعمالِ باطنی کا نام تصوف ہے۔ اعمالِ ظاہری بہت طویل ہیں۔ جب کوئی چیز طویل ہوجاتی ہے تو اُس کے شعبے بنادیے جاتے ہیں۔ پہلے کے ڈاکٹر سارے کام خود ہی کرلیا کرتے تھے، خود ہی فزیش تھے، خود ہی علاج کرتے تھے، وہی ڈاکٹر پیروں، ہاتھوں اور جسم کے تھے لیکن جیسے جیسے اس شعبے کو ترقی ہوئی تو ہر ایک کا اسپیشلسٹ الگ الگ ہوگیا۔ اب جو آنکھوں کا اسپیشلسٹ ہے وہ پیٹ کو نہیں دیکھتا، جو ڈاکٹر پیٹ کا ہے وہ پیٹھ کو نہیں دیکھتا چونکہ ہر کسی کا کام اتنا طویل ہوگیا ہے کہ وہ دوسرے میں دلچسپی نہیں لے سکتا اور اگر اُس نے دلچسپی لی تو اپنے کام میں کامل نہیں ہوسکتا۔ خصوصیت جب ہی حاصل ہوتی ہے جب ایک چیز کو مضبوطی سے پکڑلیتا ہے۔ اعمالِ ظاہری میں جزئیات کے اجتہاد سے اتنی تفصیل ہوگئی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث پر غور کرکے جن فقہی مسائل کا استنباط کیا ہے اُن کی تعداد اَسّی ہزار ہے۔ اَسّی ہزار مسئلے اُن کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ جیسے یہ فقہی کام طویل ہوگیا، ایسے ہی اعمالِ باطنی سے متعلق جو فقہ اور مسائل ہیں اُن کا کام بھی طویل ہوگیا۔ اصل شریعت ظاہر اور باطن دونوں کا جاننا ہے۔ جب تک آدمی اللہ تعالیٰ کے ظاہری و باطنی تمام اعمال کو پورا نہیں کرے گا، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کا پورا فرمانبردار نہیں کہلائے گا۔ اسی لیے قرآن پاک میں ہے:
وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ۱؎
جو گناہ ظاہری ہیں اُن کو بھی چھوڑو اور جو گناہ باطنی ہیں اُن کو بھی چھوڑو
-----------------------------------------------------
۱؎: الانعام:۱۲۰۔