لڑائی ہوگئی، بعض دفعہ اس لڑائی کو بھی جہاد کا حکم دے دیا جاتا ہے، اس کی حفاظت کرنا بھی شرعی اعتبار سے ضروری ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ جھگڑا کتنے عرصے سے چل رہا ہے، یہ جہاد ہورہا ہے۔ افغانستان اور رُوس کا جھگڑا وہ بھی جہاد ہوا، مگر اس میں جہاد کا حکم ہے۔ اسلام میں زمین کے ایک بالشت ٹکڑے کو بچانا بھی فرائض و احکام میں سے ہے۔ اپنے علاقے کو محفوظ کرنا، مسلمانوں کو محفوظ کرنا اور اپنے او پر آنے والی مصیبت کو دُور کرنا بھی جہاد ہے لیکن وہ حقیقی جہاد نہیں ہے۔ حقیقی جہاد یہ ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کسی سے لڑنے کی بات کا پیش آجانا۔ دین کی دعوت دینے کے لیے نکلے، اگر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں تو بہت اچھا ہے۔ اگر اسلام کو قبول نہیں کرتے ہیں تو ماتحتی کو قبول کرلیں۔ ماتحتی بھی اسی لیے ہے کہ ابھی اُن لوگوں نے اسلام کو سمجھا نہیں ہے، جس دن وہ اسلام کو سمجھ لیں گے تو وہ خود ہی قبول کریں گے۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے اُس کے ماحول کو دیکھنا اور اُس کا تفصیلی مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
نظامِ جزیہ
اسلامی معاشرے کو دیکھنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے اسلام نے جزیہ کی بنیاد رکھی ہے۔ اگر آپ جزیہ دے کر رہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، جتنے حقوق مسلمانوں کے ہیں اُتنے حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ اُن کی جان محفوظ، اُن کا مال محفوظ، اُن کی عزت محفوظ، اُن کی جان کا ویسا ہی بدلہ لیا جائے گا جیسے مسلمان کے ناحق خون کا بدلہ لیا جاتا ہے۔
غرض یہ کہ اسلام کے جزیہ کا نظام ہی بتارہا ہے کہ اسلام کسی کو زبردستی مسلمان کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ ورنہ یوں کہا جاتا کہ ان کے ساتھ لڑو اور جو اسلام قبول نہ کرے اُن کو قتل کردو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی عین لڑائی کے وقت میں اپنی جان بچانے کے لیے