ہوگا؟ اُس کا تو کوئی حساب نہیں ہے۔ مگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا مسکن نہیں ہے کیونکہ عرش بھی مخلوق ہے اور مخلوق خالق کو نہیں گھیر سکتی۔ یہ اصل میں سمجھنے کی چیز ہے۔ ان چیزوں کو سمجھنے سے عقیدوں کے مسئلے بھی حل ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نہ عرش پر بیٹھے ہوئے ہیں اور نہ کرسی پر۔
کرسی کی وسعت
ایک مرتبہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کرسی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اس کو سمجھانے کے لیے فرمایا کہ اگر زمین کو کھول دیا جائے، آسمان کو کھول دیا جائے، یکے بعد دیگرے ان سب کو ملایا جائے اور ساتوں آسمان اور زمین کا میدان بنایا جائے تو یہ ساتوں آسمان و زمین کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے بہت بڑے میدان میں ایک حلقہ (چَھلَّہ) ڈال دیا گیا ہو۔۱؎
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہا ں پر کرسی کا جو ذکر فرمایا ہے، وہ اللہ پاک کے دونوں قدموں کی جگہ میں ہے۲؎ (اور اس کی حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے)۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ تشریف فرما تھے۔ بادل آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اللہ و رسولہ اعلم۔
صحابہ سمجھ گئے کہ اس سوال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کہیں یہ بادل ہے ،کیونکہ یہ بات سب ہی کو معلوم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضور ﷺ حقیقت کو پوچھ رہے ہوں اور کسی کو بھی کسی چیز کی حقیقت معلوم نہیں ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎:تفسیر ابن کثیر:۱ / ۳۱۰۔ ۲ ؎:المستدرک: ۳۱۱۶۔