سے کرید کرید کر نکالتا ہے اور اپنے اندر اچھی صفات پیدا کرتا ہےاور ان اعمالِ باطنی کے طریقوں کو طریقت کہا جاتا ہے۔ اب ظاہر اور باطن دونوں آراستہ ہوگئے۔ جب یہ بات پیدا ہوتی ہے تب جاکر دل میں جِلا اور روشنی آتی ہے اور دل میں صفائی پیدا ہوتی ہے۔ اس صفائی کے حاصل ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر کچھ حقائق کھولے جاتے ہیں۔ ان حقائق کا نام ''حقیقت'' ہے۔ پہلے شریعت ہوتی ہے، شریعت کے بعد طریقت اور طریقت کے بعد حقیقت ہوتی ہے۔ جب آدمی شریعت والے طریقے پر چلتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُس پر حقائق کھولتے ہیں۔ اس حقیقت کے کھلنے کا نام معرفت ہے۔ اس کے بعد آدمی عارف بنتا ہے۔ یہاں آکر آدمی کو ولایتِ خاصہ ملتی ہے۔
اولیاء اللہ کی اقسام
پھر اولیاء اللہ دو قسم کے ہوجاتے ہیں۔ ایک اہلِ تکوین ہوتے ہیں اور دوسرے اہلِ تشریع ۔ اہلِ تشریع کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرنا، رُشد و ہدایت کرنا، لوگوں کو بتانا وغیرہ، یہ ذمہ داری اہلِ تشریع سے متعلق ہوتی ہے۔ اہلِ تشریع میں سب سے بڑے درجے والے کو ''قطب الارشاد'' کہتے ہیں اور اسی کو ''غوثِ اعظم'' کہتے ہیں۔ یہ ''غوثِ اعظم'' عہدہ ہے۔
ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ''غوث'' کے معنی کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ مدد کرنے والا۔ پوچھنے لگے کہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث بولنا کیسا ہے؟یہ سوال اسلیےپیدا ہوا کہ ایک طبقہ ایسا ہے جوحضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو ''غوث'' بنانا جائز بتاتا ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ غوث، قطب اور ابدال مراحل کے اعتبار سے عہدوں کے نام ہیں۔ قطب ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں اُمت کی اصلاح اس سے متعلق ہوتی ہے اور پوری اُمت کے مولویوں سے جو مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اُسے وہ حل کردیتا ہے۔