سونگھتے شیر کی ناک بادشاہ کی کٹی ہوئی انگلی پر لگی تو شیر بادشاہ کو کسی اور کا شکار کیا ہوا سمجھ کر چھوڑ کر چلاگیا۔ جب شیر دُور چلا گیا تو بادشاہ کی جان میں جان آئی۔ پھر بادشاہ واپس ہوا اور تمام راستے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ آپ نے جان بچالی۔ بادشاہ سوچتا رہا کہ وزیر نے انگلی کٹنے پر کہا تھا کہ جو ہوا اچھا ہوا، اگر میری انگلی کٹی ہوئی نہیں ہوتی تو آج شیر مجھے شکار کرلیتا۔ محل پہنچ کر وزیر کو جیل سے بلوایا اور کہا کہ تمہاری بات بالکل صحیح تھی کہ جب میری انگلی کٹ گئی تھی تو تم نے کہاتھا کہ جو ہوا اچھا ہوا، یہ بات تو میری سمجھ میں آگئ لیکن جب میں نے تم کو جیل میں بھیجا اور تم نے کہا کہ جو ہوتا ہے اچھا ہوتا ہے، یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ وزیر نے کہا کہ اگر میں جیل میں نہیں ہوتا تو میں آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ ہی کے پاس لیٹا ہوا ہوتا اور میری اُنگلی تو کٹی ہوئی نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے میری جان جیل بھیج کر بچائی اور آپ کی جان اُنگلی کاٹ کر بچائی۔
افعالِ باری تعالیٰ حکمت سے خالی نہیں
کائنات میں مخلوق کے ساتھ جو بھی کام ہورہا ہے اُس میں حکمت ہوتی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہورہاہے۔ بوسنیا میں کیا نہیں ہورہاہے ، عراق میں کیا نہیں ہورہاہے، رُوس و چین میں کیا نہیں ہورہاہے، صومالیہ میں کیا نہیں ہورہاہے۔ لیکن ہماری آنکھیں اُس چیز کو نہیں دیکھتیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کا علم دیکھتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ کیا حکمت ہے۔
جب میں چین کے سفر سے واپس آیا تو مفتی نصیر احمد صاحب سے ملنے کے لیے گیا۔ اُن کو چائنا کے مسلمانوں پر کئے گئے مظالم سنائے،کہ ہزاروں علماء اور مسلمانوں کو کس طرح قتل کیا گیا۔ تھوڑی دیر سنتے رہے، پھر فرمایا کہ تم نے اس کو کیا سمجھا؟ میں نے کہا کہ بڑے افسوس کی