جابر ضی اللہ عنہ کوئی ناجائز کام کرنے نہیں جارہے تھے، وہ جائز کام ہی تھا، مگر اصل بات یہ ہے کہ حضور ﷺنے سادہ معاشرت کی تعلیم دی، تکلّفات والی معاشرت کی تعلیم نہیں دی۔
جتنی رعایت اتنی دشمنی
یہ بات میں نے اس پر عرض کی کہ شیطان آدمی کو کس طرح نور سے نکال کر ظلمت کی طرف لے جاتا ہے۔ آپ کا ہاتھ پکڑ کر نہیں لے جاتا، آپ کو زبردستی نہیں لے جاتا۔ نور سے نکالنے کا مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس کو ترغیب دیتا ہے اور آمادہ کرتا ہے اور آدمی کو اپنے راستے پر ڈالتا ہے۔ اسی لیے آدمی کو شیطان کے راستے سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو اس شیطانی راستے سے بچاسکے۔ نفس کا بھی یہی کام ہے۔ جب نفس دیکھتا ہے کہ یہ میری بات نہیں مان رہا ہے تو نفس بڑی خواہش سے چھوٹی خواہش پر آجاتا ہے اور جب چھوٹی خواہشات پوری ہونے لگتی ہیں تو اُسے بڑی خواہشات کی طرف لے جاتا ہے۔
نفس آدمی کا ایسا دُشمن ہے کہ آپ اُس کی جتنی رعایت کریں گے اُس کی دُشمنی اُتنی اور بڑھ جائے گی۔ پوری دنیا میں دُشمنی کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ دُشمن کی رعایت کریں گے تو دُشمنی کم ہوجائے گی جبکہ نفس کی خصوصیت ایسی ہے کہ جہاں آپ اُس کی رعایت کریں گے تو اُس کی دُشمنی بڑھ جائے گی۔ نفس و شیطان انسان کو نور سے نکال کر ظلمت کی طرف لاتے ہیں
حق تعالیٰ جل جلالہ، و عم نوالہ، انسانوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ولی ہیں اور شیاطین کافروں کے ولی ہیں۔ ولایت سے کوئی بھی خالی نہیں
ہے، ولی وہ بھی ہیں اور ولی یہ بھی ہیں، کوئی ولی الرحمن ہے تو کوئی ولی الشیطان ہے۔ کوئی ولی اللہ ہے اور کوئی ولی الطاغوت ہے، سب کے سب ولی ہیں۔