حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ مومن کو کوئی تکلیف ،غم جو بھی پہونچتا ہے حتی کہ کانٹے کی تکلیف یا اس سے بھی کم درجہ کی تکلیف ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں ۔۱؎
اگر یہی مصیبت کسی کافر پر آرہی ہے تو وہ مصیبت برائے مصیبت ہے کیونکہ کافر کو آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا اور نہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ مؤمن پر آنے والی مصیبت، مصیبت برائے اصلاح یا کفارہ ہے۔ یہ ولایتِ عامہ کے اثرات ہیں۔
ولایتِ خاصہ
ایک ولایتِ خاصّہ ہوتی ہے جن کو ہم اولیاء اللہ اور بزرگوں کے نام سے جانتے ہیں وہ ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل آج ہی بیان کرنا چاہتا تھا لیکن تھوڑی دیر ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آئندہ بیان کروں گا۔ ابھی تھوڑا سا عرض کردیتا ہوں۔ ہر مسلمان کو ولایتِ خاصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نبوت وہبی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کو نبی بنانا چاہا اُس کو نبی بنادیا، کوئی آدمی اپنی کوشش سے نبی نہیں ہوا جبکہ ولایت کسبی ہوتی ہے اورمقصود بھی ہوتی ہے یعنی ولایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی دیتے ہیں لیکن بندے کی کوشش اورمحنت پر دیتے ہیں۔ ولایتِ عامہ اور ولایتِ خاصہ کا معاملہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ ولی خاص جن کو ہم ولی اللہ اور بزرگانِ دین کہتے ہیں، یہ بہت بڑا شرف ہے، بہت ہی بڑی بات ہے۔
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن انسانوں کا ایک طبقہ ایسا ہوگا جس پر انبیاء،شہداء اور صدیقین کو رشک ہوگا اور وہ اللہ کے ولی ہوں گے۔۲؎
-----------------------------------------------------
۱؎: صحیح بخاری:۵۲۱۹۔ ۲؎: شعب الایمان:۴۰۹۔