علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اس شرط پر شادی کرلے کہ میں مہر نہیں دوں گا تو بھی مہر دینا پڑتا ہے ،کیونکہ جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اُسے بندہ ساقط نہیں کرسکتاالبتہ اگر عورت معاف کردے تو معاف ہوجائیگا۱؎ ۔ یہ مہر صرف قرآن پاک کے یاد کرانے سے بھی معاف نہیں ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے طے فرمادیا وہ تو اپنی جگہ پر ہے، لیکن چونکہ شادی کے لیے پہلے پیش قدمی کرنے کا رواج مال نہ ہونے کی صورت میں نہیں تھا تو حضور ﷺ نے ترغیب دی تھی کہ تم قرآن پاک کی کسی آیت کو یاد کرواکر شادی کرسکتے ہو جس میں آپ ﷺ نے آیۃ الکرسی کو خاص طور پر بیان فرمایا۔
اس حدیث سے اتنا مفہوم سمجھ میں آیا کہ حضور ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں اس کی اتنی اہمیت بٹھائی اور حضور ﷺ کے نزدیک اس آیت کی اتنی اہمیت تھی کہ آپ ﷺ نے اس کا باضابطہ سوال کیا اور اس کا جواب حاصل ہونے پر آپ ﷺ نے انہیں اجازت دی کہ تم اپنے اندر تو شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔
تحیۃ المسجد کی شرعی حیثیت
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ میں آپ کی خدمت میں بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ اے ابوذر! تم نے نماز پڑھ لی۔ میں نے کہا کہ نہیں پڑھی۔
مسجد میں حاضر ہوتے ہی نماز پڑھنا چاہیے، چاہے آپ نماز کے لیے آئے ہوں یا کسی اور کام کے لیے آئے ہوں۔ جس کو مسجد کہتے ہیں اگر آدمی اُس میں آئے تو اُسے تحیۃ المسجد پڑھنا چاہیے۔ آدابِ مسجد اور آدابِ دربارِ شاہی میں سے یہ بات ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے
-----------------------------------------------------
۱؎: فتاویٰ ہندیہ : الفصل الثانی فیما یتأکدبہ المھر والمتعۃ۔