صفات کا اندازہ اس وقت میں ہوگا جب آدمی الحي اورالقیوم کو سمجھے۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا کہ الحي القيوم اسمائے اعظم میں سے ہیں۔ ۱؎
اسمِ اعظم کی خصوصیت
حضور ﷺنے فرمایا:کہ اسم اعظم سورۂ بقرۃ ،آل عمران اور سورۂ طہ میں ہے، حضرت ابو امامہ ؓ کے شاگرد حضرت قاسمؒ کہتے ہیں کہ میں نے اس کو تلاش کیا تو میں نے ان تین آیتوں میں ان تین کلمات کو پایا، الٓمّ،اللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ اور وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ۔۲؎ یہ قرآن پاک کی تین آیتیں ہیں جن میں اسمِ اعظم چھپا ہوا ہے۔
اسمِ اعظم کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو اسمِ اعظم کا علم ہوجائے تو آدمی اُس کے بعد جو دُعا مانگتا ہے وہ قبول ہوجاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جس نے تختِ بلقیس کو لایا تھا، اُس کے بارے میں علماء یہی کہتے ہیں کہ اُس کے پاس اسمِ اعظم کا علم تھا۔ بعض یہ کہتے ہیں اس سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام ہی ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسمِ اعظم کا علم تھا۔۳؎
اللہ تعالیٰ نے اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، میں اپنی دو صفتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو آدمی اس کو سوچتا رہ جائے کہ ''الحي القیوم'' کیا ہے،وہ کیسی قدرت اورعظمت والے ہیں۔
-----------------------------------------------------
۱؎ : مستدرک حاکم:۱۸۶۱۔ ۲؎ : مستدرک حاکم:۱۸۶۶۔ ۳؎ : تفسیر رازی:۲۴ / ۵۵۶۔