فرمائی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کسی کی بھی یہ جرأت نہیں ہے کوئی ہم سے کچھ کہہ سکے، ہم اتنے عالیشان ہیں۔ اس سے مشرکین کا وہم دُور ہوگیا:
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفٰى ۱؎
ہم ان کی پرستش صرف اسلئےکرتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں۔
اور یوں کہا کرتے تھے:
هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ ۲؎
ہم جن کی عبادت کرتے ہیں وہ اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ اللہ کے برابر ہیں، بلکہ محض اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں کہ ہم تو براہِ راست اللہ کو راضی نہیں کرسکتے، ہم گنہگار ہیں اور اللہ کا دربار بہت عالی ہے۔ اب ہم گندوں کے لیے یہ طریقہ ہے کہ اگر ہم ان سے تعلق رکھیں گے اور اللہ ہم سے ناراض ہوں تو یہ لوگ اللہ سے کہہ کر ہمارے لیے راضی کرلیں گے۔ حق تعالیٰ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہا ں پر کسی کی بھی نہیں چلتی۔
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهٖ
کون ہے جو ہمارے سامنے سفارش کی جرأت کرے۔
شفاعت کا مقصد
یہاں پر ایک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش ہوگی اور اللہ تعالیٰ اجازت اُسی کے لیے دیں گے جس کو بخشوانا چاہیں گے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کو بخشنا چاہتے ہیں تو پھر
-----------------------------------------------------
۱؎ : الزمر:۳۔ ۲؎: یونس:۱۸۔